ممبئی(ویب ڈیسک) چند دن قبل بھارتی تاریخ کا سب سے بڑا ’سیکس اسکینڈل‘ سامنے آیا تھا، جس کے تحت کم سے کم 5 خواتین اور ایک مرد ملزم کو پولیس نے گرفتار کرکے معاملے کی تفتیش شروع کردی تھی۔ابتدائی طور پر یہ خبر سامنے آئی تھی کہ گرفتار خواتین نے بڑی ذہانت سے کام لیتے ہوئے کالج کی کم عمرخوبرو لڑکیوں کو بھرتی کرکے کئی ماہ تک بااثر اور امیر سیاستدانوں، سرکاری افسران، پولیس افسران و امیر افراد کو پیار کے جال میں پھنسا کر بلیک میل کیا۔رپورٹس تھیں کہ اس اسکینڈل کیس کے تحت ریاست مدھیا پردیش کے کم سے کم 8 سابق وزرا، سرکاری و پولیس افسران سمیت متعدد امیر افراد کو بلیک میل کیا گیا، ان کی فحش ویڈیوز اور آڈیوز ریکارڈ کرکے انہیں بلیک میل کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق تفتیشی افسران نے گرفتار کی گئی خواتین سے کم سے کم ایک ہزار فحش ویڈیوز اور نامناسب تصاویر بھی برآمد کی تھیں۔تاہم اب اس اسکینڈل سے متعلق سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں اور سب سے بڑے اسکینڈل کی حیران کن معلومات سامنے آنے کے بعد وہاں کے کئی لوگ سکتے میں آگئے۔’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق بھارت کی تاریخ کے سب سے بڑے سیکس اسکینڈل کہلائے جانے والے اسکینڈل میں پولیس کو ایک ہزار نہیں بلکہ کم سے کم 4 ہزار فحش ویڈیوز، تصاویر، آڈیو ریکارڈنگز اور واٹس ایپ پیغامات ملے ہیں۔رپورٹ کے مطابق پولیس اور تفتیشی ٹیم کے لیے سب سے اہم چیلنج یہ ہے کہ وہ برآمد کی گئی نامناسب ویڈیوز اور فحش تصاویر کو محفوظ کیسے رکھیں؟
رپورٹ میں بتایا گیا کہ برآمد ہونے والے انتہائی حساس اور نامناسب مواد کی حفاظت کے پیش نظر ہی اعلیٰ سرکاری افسران کو بھی برآمد ہونے والی ویڈیوز اور تصاویر تک رسائی نہیں دی جا رہی اور اب تک ہونے والی تفتئش کی مکمل معلومات بھی میڈیا کو فراہم نہیں کی جا رہی۔رپورٹ کے مطابق اس اسکینڈل کی مرکزی ملزم خاتون 39 سالہ شویتا جین انتہائی ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے سائبر سیکیورٹی کی کمپنی بناکر سیاستدانوں، سرکاری و پولیس افسران، تاجروں اور امیر افراد کو بلیک میل کیا۔مجموعی طور شویتا جین کے ساتھ 5 خواتین کو گرفتار کیا گیا جو اس اسکینڈل کی مرکزی ملزم ہیں اور وہ شویتا جین کے ساتھ مل کر ان کی جانب سے بنائی گئی جعلی دونوں کمپنیوں اور این جی اوز کی کل وقتی ملازم تھیں۔شویتا جین کے ساتھ 34 سالہ برکھا سونی، 48 سالہ شویتا وجے، 29 سالہ آرتی دیال اور 18 سالہ مونیکا یادیو کو بھی پولیس نے گرفتار کرکے تفتیش شروع کردی ہے۔اب تک کی آنے والی معلومات کے مطابق ان خواتین کی جانب سے مدھیا پردیش سمیت دیگر ریاستوں کی خوبرو اور کالج میں زیر تعلیم لڑکیوں کو نوکریوں اور پرتعیش زندگی کی لالچ دے کر بھرتی کیا گیا اور انہیں وزرا، اعلیٰ افسران، تاجروں اور بااثر ترین مرد حضرات کو بلیک میل کرنے کا ٹارگٹ دیا۔اس اسکینڈل کو ’ہنی ٹرپ‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس کیس میں پولیس کو ملنے والی ویڈیوز میں وزرا، اعلیٰ افسران اور بااثر افراد کی برہنہ اور قابل اعتراض ویڈیوز بھی شامل ہیں۔ٹائمز آف انڈیا کے مطابق اس اسکینڈل کیس کا دائرہ صرف مدھیا پردیش تک محدود نہیں ہے بلکہ بتایا جا رہا ہے کہ ملزم خواتین نے کم سے کم 5 ریاستوں کے سیاستدانوں، سرکاری و پولیس افسران سمیت تاجروں کو بلیک میل کیا۔ایک رپورٹ کے مطابق صرف مدھیا پردیش کے ایک رکن اسمبلی کی ہی 30 نازیبا ویڈیوز بنا کر انہیں کم سے کم 2 سال تک بلیک میل کیا جاتا رہا اور وہ خودکشی تک کرنے کا فیصلہکر چکا تھا۔سب سے بڑے اس ’سیکس اسکینڈل‘ میں نہ صرف خواتین اور نوجوان لڑکیاں بلکہ مدھیا پردیش کے صحافی بھی ملوث ہیں۔رپورٹ کے مطابق اس کیس میں نہ صرف عام صحافی بلکہ اخبارات کے ایڈیٹرز اور ایک ٹی وی چینل کا مالک بھی ملوث ہے جن پر الزام ہے کہ وہ بلیک میل ہونے والے افراد اور خواتین کے درمیان معاہدہ کرنے میں کردار ادا کرتے تھے۔اس کیس میں ملوث صحافیوں سے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ وہ اس وزرا، سرکاری افسران اور بااثر شخصیات کو ایسا تاثر دیتے تھے کہ وہ انہیں ایک بدنامی سے بچا رہے ہیں، لیکن دراصل وہ خواتین کے گینگ سے ملے ہوتے تھے۔سب سے بڑا اسکینڈل سامنے کیسے آیا؟ٹائمز آف انڈیا کے مطابق سب سے پہلے مدھیا پردیش کے شہر بھوپال کے شہر اندور کی میونسپل کمپیٹی کے انجنیئر ہربجن سنگھ نے پولیس کو خواتین کے ایک گینگ کی جانب سے بلیک میل کیے جانے کی شکایت کی۔ہربجن سنگھ کے مطابق انہیں 18 سالہ مونیکا یادیو اور آرتی دیال ایک خفیہ طور پر بنائی گئی ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کر رہی ہیں اور ان سے تین کروڑ روپے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
پولیس نے متاثرہ شخص کو خواتین کو کچھ رقم دینے کے لیے کہا اور اسی دوران ہی پولیس نے گروپ کی دو خواتین کو گرفتار کیا، جن سے تفتیش کے بعد مزید خواتین اور ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک ڈرائیور کو گرفتار کیا گیا۔کیس سامنے آتے ہی ابتدائی 24 گھنٹوں میں اس کیس کی تفتیش کرنے والےمتعدد افسران کو تبدیل کیا گیا اور کئی اہم افسران کو کیس سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی۔خواتین کا گروپ کیسے کام کرتا تھا؟اب تک کی معلومات کے مطابق یہ گروپ گزشتہ 5 سال سے کام کر رہا تھا اور اس گروپ کا ٹارگٹ صرف سیاستدان، سرکاری و پولیس افسران، تاجر و امیر افراد ہوتے تھے۔اس گروپ نے لوگوں کو بلیک میل کرنے کےلیے بھارت کی مختلف ریاستوں کے کالج کی 22 لڑکیوں کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔اہم شخصیات و امیر لوگوں کو اپنے پیار میں پھنسانے والی خواتین لوگوں کو ہوٹلز کے کمرے بک کروانے کا مطالبہ کرتیں اور وہ خود ان مرد حضرات سے قبل ہوٹل پہنچ کر کمرے میں خفیہ کیمرے نصب کردیتیں۔گروپ کو وسعت دینے کےلیے جہاں این جی او بنائی گئی، وہیں سائبر سیکورٹی اور فلاح و بہبود کے 2 ادارے بھی بنائے گئے اور بلیک میل کیے جانے والے سیاستدانوں سے ان اداروں کے لیے حکومتی معاہدے حاصل کیے گئے۔خفیہ بنائی گئی ویڈیوز، تصاویر اور فحش گفتگو کو سوشل میڈیا اور واٹس ایپ کے ذریعے متاثرہ افراد کو بھجوا کر ان سے بھاری رقم کے مطالبے سمیت متعدد مطالبے کیے جاتے رہے اور انکار پر ویڈیوز کو وائرل کرنے کی دھمکی دی جاتی رہی۔خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس اسکینڈل کے ذریعے حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) اور کانگریس سمیت دیگر جماعتوں کے اہم ترین سیاستدان بلیک میل ہوئے ہوں گے۔تاہم تاحال کسی بھی سیاستدان، سرکاری و پولیس افسر کا نام سامنے نہیں آیا اور پولیس اس واقعے کی تفتیش کو انتہائی خفیہ رکھنے کی کوشش میں ہے۔