کراچی: پیپلزپارٹی کے 5 سالہ دور اقتدار میں امن وامان کی صورتحال گزشتہ ادوار کے مقابلے میں کچھ بہتر تو رہی لیکن اس کے باوجود امن وامان کے ایسے کئی واقعات ہوئے جو دلوں پر دکھ کے گہرے سائے اور انمٹ نقوش چھوڑگئے ، دہشت گرد تنظیم انصار الشریعہ کا قیام اور اس کا خاتمہ اسی دورحکومت میں ہوا، سانحہ صفورا بھی رونما ہوا، ملٹری پولیس کے اہلکاروں کو شہید کیا گیا، ٹارگٹ کلنگ میں معروف قوال امجد صابری کو اسی دورحکومت میں نشانہ بنایا گیا۔ایس ایس پی چوہدری اسلم بم دھماکے میں شہید ہوئے، گلشن حدید اور عزیز آباد میں2 ڈی ایس پیز سمیت 4 چار اور 3 تین پولیس اہلکاروں کو کئی کئی مرتبہ شہر کی سڑکوں پر فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا، اورنگی ٹائون میں ایک ہی حملے میں7 پولیس اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا، رینجرزکی چوکیوں پرحملے کیے گئے، بوہری برادری بھی دہشت گردوں کے نشانے پر رہی، لیاری میں دستی بم دھماکوں کی آوازیں بھی گونجتی رہیں، غیر ملکی باشندے بھی دہشت گردوں سے بچ نہ سکے ،11 مئی 2013 کو منعقدہ عام انتخابات میں کامیابی کے بعد سندھ میں پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی، حکومت میں آتے ہی امن وامان کی صورت حال ایک بڑا چیلنج تھی، انتخابات کے دن ہی 2 دھماکے ہوئے جس میں سے ایک نیا ناظم آباد میں رینجرز پر خود کش حملہ کیا گیا جبکہ اس سے قبل قائد آباد میں رکشا میں دھماکا ہوا۔یہ دھماکے آئندہ آنے والے دنوںکی دلخراش عکاسی کررہے تھے اور ہوا بھی ایسا ہی، روزانہ کی بنیاد پر ملک کے معاشی حب میں 8 سے 10افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتارہا، بعض اوقات یہ تعداد 10 سے بھی تجاوز کرجاتی تھی ، صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے سندھ حکومت نے وفاق کے تعاون کی بدولت ماہ ستمبر میں کراچی آپریشن کا آغاز کیا ، گو کہ اس آپریشن کے نتائج کچھ عرصے بعد آنا شروع ہوئے لیکن اس کے باوجود شہر میں دہشت گردوں نے جب اور جہاں چاہا اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بنایا، 9 جنوری 2014کوایس ایس پی چوہدری اسلم کو عیسیٰ نگری کے قریب لیاری ایکسپریس وے پربم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا جس میں انھوں نے محافظوں سمیت جام شہادت نوش کیا، 13 فروری 2014 میں ڈیفنس کاز وے پر حساس ادارے کے بریگیڈیئر پر خود کش حملہ کیا گیا جو ناکام ہوا، مئی2015 کو سانحہ صفورا رونما ہوا جس میں دہشت گردوں نے صفورا کے مقام پر بس میں گھس کر 44 سے زائد افراد کو گولیوں سے بھون دیا۔غیر ملکی پروفیسر ڈیبرا لوبو کو میڈی کیئر چورنگی پر فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا، 22 جون 2016 کو رمضان المبارک میں لیاقت آباد 10 نمبر جیسی مصروف ترین شاہراہ پر دن دہاڑے معروف قوال امجد صابری کوموٹر سائیکل سوار دہشت گرد گولیوں کا نشانہ بنا کر فرار ہوگئے، 24 اپریل 2015 کو ڈیفنس کے علاقے میں معروف سماجی رہنما سبین محمود کو ہلاک کیا گیا، ایم اے جناح روڈ پر گل پلازہ کے سامنے اور صدر میں پارکنگ پلازہ کے سامنے ملٹری پولیس اہلکاروں کو سرعام فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا، اورنگی ٹائون میں انسدادپولیومہم کے دوران 7 پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کرکے شہید کیا گیا، عزیز آباد اور کورنگی عوامی کالونی میں تین تین پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ، سائٹ ایریا میں رمضان المبارک میں عین افطار کے وقت 4 پولیس اہلکار جام شہادت نوش کرگئے ۔ملزمان انصار الشریعہ نامی تنظیم کا پمفلٹ بھی پھینک کر بھاگے جس میں انھوں نے واقعے کی ذمے داری قبول کی، عزیزآباد اور گلشن حدید میں 2ڈی ایس پی بھی دہشت گردوں کے ہتھے چڑھے، 5 اپریل2017 کو شاہراہ فیصل پر کرنل رٹائرڈ ضیا اللہ ناگی کو نشانہ بنایا گیا، گزشتہ برس 2 ستمبر کو عید الاضحیٰ کے دن نماز کی ادائیگی کے بعد گھر جانے والے متحدہ کے رہنما خواجہ اظہار الحسن پر جان لیوا حملہ کیا گیا جس میں وہ تو محفوظ رہے لیکن ایک پولیس اہلکار، ایک بچہ اور ایک دہشت گرد مارا گیا، رینجرز بھی دہشت گردوں کے نشانے پر رہی۔کٹی پہاڑی، منگھوپیر، حب ، قائد آباد اور لیاری سمیت کئی علاقوں میں چوکیوں پر دھماکے ہوتے رہے، گلشن حدید میں غیر ملکیوں کی ہائی ایس کو بھی بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا لیکن خوش قسمتی سے واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ، بوہرہ برادری بھی دہشت گردوں کے نشانے پر رہی، متعدد افراد کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا جبکہ دستی بم حملے بھی کیے گئے۔