عورتیں چاہتی ہیں کہ ان کے مرد یہ راز جان جائیں’’ ہم میاں بیوی ایک دوسرے کو بے پناہ چاہتے ہیں ، پھر بھی ہماری جسمانی زندگی کچھ ٹھیک نہیں جارہی ۔‘‘یہ شکایت ایک پڑھی لکھی خاتون نے کی ہے ۔ وہ ہائی سکول میں ٹیچر ہے اور خاصی ذہین اور
سمجھدار ہے ۔اچھا تو کیا تم نے اپنے شوہر سے اس مسئلہ پر گفتگو کی ہے ؟ میں نے زرینہ سے اس کی شکایت سن کر کہا ۔ اس کا شوہر لاہور کے ایک ہسپتال میں معروف ڈاکٹر ہے ۔ دونوں کی شادی کو بارہ برس بیت چکے ہیں۔میں جب کبھی ان کے گھر جاتا ہوں تو ایک خوش باش اور معقول حد تک کامیاب گھرانے کا احساس ہوتا ہے ۔ زرینہ اپنی شکایت نوک زبان پر نہ لاتی تو مجھے ان کی ازدواجی زندگی میں اس خامی کا کبھی احساس نہیں ہوسکتا تھا میں اس سے ہربات کرسکتی ہوں۔لیکن بابا، میں سیکس پر بات نہیں کرسکتی ۔ ہمت ہی نہیں پڑتی ۔ زرینہ کہنے لگی ۔ آخر میں اسے کیسے بتاؤں کہ میں کیا چاہتی ہوں ۔آپ جانتے ہیں کہ یہ صرف زرینہ کا مسئلہ نہیں ۔ مختلف تعلیمی اور سماجی حیثیت رکھنے والی عورتوں کو اکثر اوقات اسی قسم کے احساسات ہوا کرتے ہیں اس کے علاوہ یہ صرف ہمارے ملک کا معاملہ نہیں ہے۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ اور جسمانی طورپرآزاد روئیے رکھنے والے ملک میں بھی صورت حال اسی قسم کی ہے ۔
اکثر شادہ شدہ افراد اپنے ساتھیوں کی جسمانی ترجیحات سے بے خبر ہوتے ہیں ۔یہ الفاظ پامیلا شروک کے ہیں ۔ شروک صاحبہ امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے جسمانی تعلیم کے پروگرام میں ذہنی معالجہ ہیں۔ ایک اور ممتاز امریکی ماہر کیتھلسن میکائے نے چندسال پہلے بہت سی شادی شدہ خواتین کا ایک غیر رسمی سروے کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی کئی ایسی جسمانی ضرورتیں ہیں جن سے ان کے شوہر بالکل بے خبر رہتے ہیں ۔ عورتیں چاہتی ہیں کہ کسی نہ کسی طور ان کے شوہروں کو ان ضروریات کی اطلاع ہوجائے ۔ مگر مسئلہ وہی ہے ’’ سمجھ میں نہیں آتا بات کہاں سے شروع کی جائے‘‘ ۔سروے مکمل کرنے کے بعد کیتھلسن میکائے نے امریکا کے چھ بہترین جسمانی معالجین سے اس موضوع پر گفتگو کی ۔ تعجب کی بات ہے کہ وہ بھی ان عورتوں کی رائے سے متفق تھے کہ ان کے شوہروں کو ان جسمانی ضرورتوں کو علم ہونا چاہئے ۔ آپ ان کو ایسے جسمانی راز قرار دے سکتے ہیں جن سے عورتیں اپنے شوہروں کو باخبر دیکھنا چاہتی ہیں۔عورت کے لیے سیکس زندگی کا جزو ہوتی ہےمردوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اکثر عورتیں اس وقت تک جسمانی طور پر مطمئن نہیں ہوتیں جب تک ان کی مجموعی ازدواجی زندگی خوش گوار نہ ہو۔ گویا یہ نہیں ہوتا کہ ان کے دن اچھے نہ ہوں مگر راتیں اچھی ہوجائیں ۔سات برسوں سے حمید کے سات بیاہی ہوئی انتیس سالہ بانو کا کہنا ہے۔کہ ’’ حمید کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی ۔ اس پردفتری کام کا بہت بوجھ ہے ۔ وہ بجھا بجھا سا گھر آتا ہے ۔میرے ساتھ کوئی بات نہیں کرتا ،کسی چاہت کا اظہار نہیں کرتا ۔ آدھی رات تک ٹیلی ویژن دیکھتا رہتا ہے ۔پھر بیڈروم میں آتے ہی مجھے دبوچ لیتا ہے۔میں فورا ہی گرم جوشی نہ دکھاؤں تو اس کا موڈ بگڑ جاتا ہے‘‘ ۔بیڈ پر بیوی کے روئیے کا تعین اس امر پر ہوتا ہے کہ گھر میں شوہر کا رویہ اس کے ساتھ کیسا ہے اور گھر کے مجموعی ماحول کی کیفیت کیا ہے ۔ اگر دونوں کی شام لڑنے جھگڑنے یا ایک دوسرے سے بے نیازی میں گزری ہو تو پھر بیڈ پر عورت سردمہر اور لاتعلق ہوتی ہے ۔اکثر شوہر عورت کی اس فطرت سے لاعلم ہیں ۔
لہذا وہ بہت حیران ہوتے ہیں ۔ چنانچہ تینتالیس سالہ جمیل پوچھتا ہے ’’ عورت جسمانی لمحات کو بذات خود اہم کیوں نہیں سمجھتی ؟ وہ ان کی قدر کیوں نہیں کرتی ؟ ان لمحوں سے لطف اٹھانے کے بجائے وہ پرانے لڑائی جھگڑے لے کر کیوں بیٹھ جاتی ہے ‘‘؟ جمیل کے سوال کا جواب سٹین ہال ہونیورسٹی کی ماہر سماجیات لائن ایٹواٹر نے دیاہے ۔ وہ لکھتی ہیں ’’ عورتیں زندگی کے تمام معاملات کو ایک دوسرے سے جڑا ہوا سمجھتی ہیں جبکہ مرد مختلف معاملات کو الگ تھلگ رکھتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ زندگی کی الجھنوں کو وقتی طورپر نظر انداز کرکے جنس کے مزے لیے جاسکتے ہیں‘‘ ۔جسمانی امور کی شہرہ آفاق ماہر ورجینا جانسن اپنے علم اور مہارت کی بنا پر دعوی کرتی ہیں ’’ اور چاہت کو خانوں میں تقسیم نہیں کیاجاسکتا ۔بھرپور سیکس قربت اور چاہت کا تسلسل ہوتی ہے‘‘ ۔یہ حقیقت بہت اہم ہے ۔ چنانچہ ماہرین اچھی ازدواجی زندگی کے لیے یہ مشورہ دیا کرتے ہیں کہ میاں بیوی جب سیکس پر آمادہ نہ ہوں تو بھی ان کو ایک دوسرے کے لیے چاہت کا اظہار کرتے رہنا چاہئے ۔ شوہر شام کو گھر لوٹتے ہوئے ، کسی وجہ کے بغیر ہی ، بیوی کے لیے گلدستہ یا کوئی اور تحفہ لے آئے۔ چوں کو سیروتفریح کے لیے لے جائےتو اس قسم کی باتوں سے ان کی جسمانی مسرتیں بڑھ جاتی ہیں۔ ان کی ازدواجی زندگی بہتر ہوجاتی ہے ۔ناگوار امور کے بارے میں نرمی سے مگر صاف صاف بات کرنے سے بھی مدد مل سکتی ہے ۔ وکی نے ایسا ہی کیا تھا ۔ اس نے شوہر کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ بیڈ پر جانے سے پہلے وہ اس کی توجہ اور گفتگو کی آرزو کرتی ہے ۔وکی نے ہمیں بتایا ’’ میری اس بات کا اچھا اثر ہوا ۔ اب ہم دونوں میں ایک نئی مفاہمت پیدا ہوچکی ہے ۔ بیڈ ٹائم سے پہلے ہم ایک گھنٹہ مل کر بیٹھتے ہیں ۔باتیں کرتے ہیں یا موسیقی سنتے ہیں ۔ اب ہم دونوں جسمانی طورپر زیادہ مطمئن ہیں ۔گفتگو اکثر عورتوں کے لیے محرک ہوتی ہے رات کے کھانے کے دوران یا کسی اور فرصت کے وقت اچھی گفتگو سیکس کے لیے موثر محرک ثابت ہوتی ہے ۔ ایک دوسرے سے کہے جانے والے چاہت بھرے الفاظ رفاقت کی خواہش کو بڑھاتے ہیں ۔ لائن ایٹواٹر کا ذکر پہلے کر چکے ہیں ۔ انہوں نے ایک اہم بات دریافت کی ۔ایٹواٹر صاحبہ نے کئی عورتوں کے انٹرویو لئے جنہوں نے اپنے شوہروں کے علاوہ غیر مردوں سے جسمانی تعلقات استوار کر رکھے تھے۔ ان عورتوں کے مفصل مطالعے سے ایٹواٹر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہغیر مردوں سے جسمانی تعلق رکھنے والی پچھتر فیصد عورتوں کو محض جسمانی تسکین کے لیے غیروں کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ وہ آزادانہ مکالمے کی طلب گار ہوتی ہیں ۔
وہ بھرپور رفاقت چاہتی ہیں ۔لائن ایٹواٹر نے لکھا ہے ’’ میں نے جن عورتوں کا مطالعہ کیا ،ان میں سے ایک کو بخوبی علم تھا کہ اس کا آشنا نامرد ہے ۔ لیکن وہ لچھے دار باتیں کرنے کا فن جانتا تھا ۔ یوں اس کی صحبت میں اس عورت کو وہ کچھ مل جاتا تھا جو اس کا شوہر اس کو نہ دے سکتا تھا۔ م یا دینے پرآمادہ نہ تھا‘‘۔کیلی فورنیا یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن کی نفسیات دان لونی بارباخ نے اس بات کو آگے بڑھایا ہے ۔ وہ کہتی ہیں ’’ بہت سی عورتوں کے لیے سیکس سے زیادہ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ان کو چاہے جانے کا احساس دلایا جائے ۔ ان کے ساتھ باتیں کی جائیں ۔ خاص طور پر وہ عورتیں جو سارا دن گھریلو کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہیں ،وہ گفتگو کے لیے ترستی ہیں ۔ ان سے باتیں کی جائیں ، ان کی بات سنی جائے اور ان سے میٹھے بول کہے جائیں تو وہ خوشی سے پھولی نہیں سما تیں‘‘۔میرے ایک بیالیس سالہ دوست امجد کو اس کا ذاتی تجربہ ہے ۔
دس سال پہلے اس کی شادی شبنم سے ہوئی تھی ۔ وہ کہتا ہے کہ شروع شروع میں محبت کا اظہار میرے بس کا روگ نہ تھا۔میں اس معاملے میں بہت شرمیلا اور نکما تھا ۔ لیکن ایک رات میں گہرا سانس لیا اور دل کی بات شبنم سے کہہ ڈالی ۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھے اس سے گہری محبت ہے ۔ میرے لیے وہ دنیا کی حسین ترین عورت ہے ۔ میرے الفاظ سے وہ بہت متاثر ہوئی ۔اب میں گاہے بگاہے اپنے جذبوں کو الفاظ کا روپ دیتا رہتا ہوں ۔ اس طرح ہماری زندگی ہی بدل گئی ہے ۔ہم بہت خوش اور ایک دوسرے سے مطمئن ہیں‘‘۔عورتوں کو بھی جسمانی کارکردگی کی تشویش لاحق ہوتی ہے عورتوں کے جسمانی رویوں کے بہت سے سائنسی مطالعے کیے گئے ہیں ۔ ان کے نتیجے میں سامنے آنے والے حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ صرف ساٹھ فیصد عورتیں ایسی ہیں کہ جتنی بار وہ جسمانی فعل کرتی ہیں وہ انزال تک پہنچتی ہیں ۔اکثر عورتوں کو اپنے ساتھی یا خود اپنی طرف سے انزال کے لیے دباؤ ہوتا ہے ۔اس موضوع کو اٹھاتے ہوئے ایک ماہر نفسیات نے لکھا ہے ’’ لوگ بھول جاتے ہیں کہ بسا اوقات محبوب کی رفاقت بذات خود لطف انگیز ہوتی ہے ۔ اکثر مردوں کے نزدیک اچھا جسمانی ساتھی وہ ہوتا ہے جو اپنی بیوی کو ڈرامائی جسمانی تسکین سے ہمکنار کرتا ہے ۔بلاشبہ اس قسم کے لمحات زبردست ہوتے ہیں لیکن ہر بار ضروری نہیں ہوتے ‘‘۔انزال کو مقصد بنا کر سیکس کرنے کا معاملہ ایسے ہی ہے جیسے ہم گردوپیش کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کے بجائے منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے اندھا دھند بھاگتے چلے جائیں ۔ سیکس کا مقصد باہمی رفاقت سے مسرت حاصل کرنا ہے ۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔
چنانچہ جو عورتیں یا مرد انزال کو ٹارگٹ بنا کر سیکس کرتے ہیں ، ان پرمنزل تک پہنچنے کی تشویش رہتی ہے ۔وہ سارا مزہ کرکرا کردیتی ہے۔بہت سی عورتیں اپنی جسمانی کشش کے بارے میں تشویش میں مبتلا رہتی ہیں ۔ دو بچوں کی ماں انتالیس سالہ فریحہ کہتی ہیں ’’ شادی کے دس برسوں میں میرا وزن چھبیس پونڈ بڑھ گیا ہے ۔ میں پریشان رہتی ہوں کہ شاہد کہیں بددل نہ ہوجائیں‘‘ ۔شوہر بیوی کو دلکشی اور چاہت کا احساس کس طرح دلا سکتا ہے ؟اس کا سیدھا سا طریقہ یہ ہے کہ بناوٹ سے کام نہ لیا جائے ۔بیوی موٹی ہے تو اس کو پھول کی پنکھڑی سے تشبیہ دینے کی ضرورت نہیں ۔ہاں اس میں جو بات اچھی لگتی ہے ،اس کی تعریف ضرور کریں ۔ بیوی کے ہاتھ خوبصورت لگتے ہیں تو یہ بات اس کو جتلاتے رہا کریں ۔ آنکھیں پسند ہیں ،تو شرم کی کون سی بات ہے ۔ ان کی تعریف کردیں ۔اس سلسلے میں ایک اور بات یہ ہے کہ بیڈ پر بہت سنجیدہ رویہ کوئی قابل تعریف معاملہ نہیں ۔ یہ ہنسنے کھیلنے کے لمحات ہیں ۔ان کو بوجھ نہ بنایا کریں ۔ سیکس کے بعد توجہ عورت کو تسکین دیتی ہے اکیس سال سے شادی شدہ چوالیس سالہ زبیدہ کو اب بھی گلہ ہے کہ جسمانی فعل کے بعد وہ تنہائی محسوس کرتی ہے ’’ میرا میاں شب بخیر بھی کہے بغیر منہ موڑ کر خراٹے لینے لگتا ہے‘‘ ۔
اس قسم کی شکایتیں بہت سی عورتیں کرتی ہیں ۔ ان کو شوہروں کا یہ رویہ پسند نہیں ہوتا ۔ وہ چاہتی ہیں کہ سیکس کے بعد منہ پھیرنے کی بجائے شوہر ان پر توجہ مرکوز رکھے ۔ یہ ان کے لیے خوشی کا باعث ہوتا ہے ۔وہ چاہتی ہیں کہ شوہروں کو اس ضرورت کا علم ہو جائے ۔ جن عورتوں کے شوہر سیکس کے بعد بھی متوجہ رہتے ہیں ، وہ خاص قسم کی مسرت محسوس کرتی ہیں ۔ وہ توجہ طلب لمحات کو جسمانی فعل کے بعد بھی جاری رکھنا چاہتی ہیں ۔لہذا بعد میں ان سے دو میٹھی باتیں ضرور کریں ۔ اور ہاں ان لمحوں میں کوئی غلط بات کہنے سے گریز کریں ۔ بارباخ کی تلقین یہ ہے ’’ شوہر کو اس وقت کوئی نکتہ چینی نہیں کرنی چاہئے‘‘ ۔ایک تجربہ کار خاتون کا عورتوں کو مشورہ یہ ہے کہ ان کو بھی جسمانی فعل کے بعد کے لمحات میں احتیاط سے گفتگو کرنی چاہئے ۔ اس خاتون نے اپنی ایک سہیلی کی حماقت کی مثال دیتے ہوئے کہا ’’۔ ایک بار بھرپور سیکس کے بعد اس نے اپنے شوہر سے کہا آج آخری تاریخ تھی تم نے سوئی گیس کا بل جمع کرا دیا تھا ۔‘‘ یہ برسوں پرانی بات ہے مگر ہم آج بھی اس پرہنسا کرتے ہیں ۔ اس قسم کی حماقتوں سے بہتر یہ ہے کہ میاں بیوی چند لمحوں کے لیے باقی دنیا کو فراموش کردیں ۔ عورتوں کو غیر جسمانی چھیڑ چھاڑ بھی چاہئے بتیس سالہ شیلا اپنے شوہر کی ایک ہی شکایت کرتی ہے کہ وہ صرف اس وقت اس کو چھوتا ہے جب وہ سیکس پر آمادہ ہوتا ہے ’’ کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ وہ محض چھیڑ چھاڑ میں مجھے چوم لے یا چھو ہی لے ۔ پتہ نہیں اس کے لیے یہ کام مشکل کیوں ہے ‘‘؟ شیلا کے شوہر کا کہنا ہے کہ چھونے سےجسمانی جذبے بھڑک اٹھتے ہیں ۔ لہذا وہ غیر ضروری لمحات میں اس سے گریز ہی کرتا ہے ۔آئیے اس بارے میں ایٹواٹر صاحبہ سے پوچھتے ہیں ۔وہ کہتی ہیں کہ یہ رومانس غیر معمولی نہیں ۔ عورتیں رومانس چاہتی ہیں ۔یہ ان کی ذہنی ضرورت ہے۔ اس کو پورا کرنا چاہئے ‘‘۔ ’’ میاں بیوی کا رشتہ زندگی کا اہم ترین تعلق ہے ۔ان کو باہمی رفاقت کے لمحوں کو باقی چیزوں پر ترجیح حاصل ہونی چاہئے ۔ قربت کا مطلب لازمی طورپر سیکس نہیں ہے ۔ اس کا مطلب ایک دوسرے کے جذبوں میں شراکت ہے ۔ دونوں کو اکٹھا گزارنے کے لیے وقت نکالنا چاہئے ۔ بھرپور زندگی کے لیے یہ معاملہ بہت ضروری ہے‘‘ ۔