اسلام آباد (ویب دیسک) وزیراعظم عمران خان نے قانونی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ میاں نواز شریف سے متعلق عدالتی فیصلے کا تفصیلی جائزہ لے۔ وزیراعظم عمران خان سے قانونی ٹیم نے رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے قانونی ٹیم کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ نواز شریف کے بارے میں عدالت کے
فیصلے کے قانونی پہلوؤں پر مشاورت کرکے اس کی رپورٹ وفاقی کابینہ میں پیش کرکے ارکان کو تفصیلی طور پر آگاہ کرے۔ ذرائع کے مطابق فیصلے سے متعلق حکومتی لائحہ عمل کابینہ اجلاس میں طے کیا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کابینہ ارکان سے رائے لیں گے اور آئندہ کی حکمت عملی طے ہوگی۔ اجلاس میں فیصلے کے خلاف اپیل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالتے کا حکم دیتے ہوئے انہیں 4 ہفتے کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دیدی تھی، عدالت کی طرف سے کوئی گارنٹی نہیں مانگی گئی۔ جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت کے شرط کو مسترد کیا جبکہ نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی پر انہیں علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دی۔ عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے لگائے گئے 7 ارب روپے کے بونڈ کی شرط کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب ہائی کورٹ نے ضمانت دی ہے تو اس شرط کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ لاہور ہائیکورٹ نے حکم میں کہا کہ نواز شریف علاج کی خاطر 4 ہفتوں کے لیے ملک سے باہر جاسکتے ہیں اور علاج کے لیے مزید وقت درکا ہوا تو درخواست گزار عدالت سے دوبارہ رجوع کرسکتا ہے اور میڈیکل رپورٹس کی روشنی میں توسیع دی جاسکتی ہے۔ چوتھی بار کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے وفاقی حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو عدالتی بیان حلفی پر اعتراض ہے جس پر وکیل وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ ہمیں عدالتی ڈرافٹ پر تحفظات ہے۔ جسٹس علی باقر نجفی کا کہنا تھا کہ کیا عدالت جو انڈر ٹیکنگ لا رہی ہے وہ ٹھیک نہیں؟ وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ بیان حلفی پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو کیا ہو گا؟ عدالت کا کہنا تھا کہ پھر توہین عدالت کی کارروائی پر آپشن موجود ہے، صبح سے شام ہو گئی ابھی تک فریقین میں اتفاق نہیں ہوا۔ وفاقی حکومت کے عدالتی ڈرافٹ پر اعتراض مسترد کرتے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے فیصلے سناتے ہوئے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا نام چار ہفتے کے لیے ای سی ایل سے نکالتے ہوئے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دیدی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر چار ہفتوں میں طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی تو قیام میں توسیع ہو سکتی ہے۔ فیصلہ قانون کے مطابق ہے۔ اس سے قبل نواز شریف کے ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر تین بار کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے بیان حلفی تیار کیا گیا، عدالتی بیان حلفی کے متن میں لکھا تھا کہ نواز شریف کو بیرون ملک علاج کیلئے 4 ہفتے کا وقت دیا ہے اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو مدت میں توسیع ہوسکتی ہے، حکومتی نمائندہ سفارتخانے کے ذریعے نواز شریف سے رابطہ کر سکے گا، عدالت نے وفاقی حکومت اور شہباز شریف کے وکلاء کو مجوزہ متن فراہم کیا۔ مجوزہ متن پر وفاقی حکومت کے وکیل نے اعتراض کیا۔ وکیل وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ عدالت ڈرافٹ میں کسی قسم کی ضمانت نہیں مانگی گئی۔ عدالتی ڈرافٹ کے جواب میں مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف نے ڈرافٹ قبول کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں عدالتی ڈرافٹ پر کوئی اعتراض نہیں۔ ڈرافٹ پر مکمل عملدرآمد کرینگے۔ لاہور ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے مسلم لیگ (ن) کے صدر کی درخواست پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عدالت میں پیش ہوئے، ساتھ لیگی رہنما پرویز رشید اور احسن قبال بھی موجود تھے۔ حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چودھری اشتیاق اے خان جبکہ قومی احتساب بیور (نیب) کی جانب سے عدالت میں فیصل بخاری اور چودھری خلیق الرحمٰن پیش ہوئے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے جب نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کی تو عدالت نے استفسار کیا کیا حکومتی دستاویز انسانی بنیادوں پر جاری کیا گیا ہے، نواز شریف کے وکیل بتائیں کہ کیا نواز شریف شیورٹی کے طور پر کچھ دینا چاہتے ہیں یا نہیں، نواز شریف سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ حکومت کے علم میں ہے نواز شریف کی صحت تسویشناک ہے، سابق وزیراعظم کا نام ای سی ایل سے تو حکومت نے نکالنے کا کہا لیکن ساتھ بانڈز بھی کہے گئے، اگر نواز شریف حکومت کو بانڈز جمع نہیں کرانا چاہتے تو عدالت میں جمع کرا دیں۔ نواز شریف کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ سابق وزیراعظم کو سزا سنائی گئی تو وہ بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر وطن آئے، نواز شریف نے کبھی عدالتی احکامات کی خلاف ورزی نہیں کی، سابق وزیراعظم کیخلاف 3 ریفرنس فائل کیے گئے، ریفرنس فائل کرتے وقت نواز شریف بیرون ملک تھے، نواز شریف ہمیشہ آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ نواز شریف ریفرنس میں عدالتی حکم پر پیش ہوئے، سپریم کورٹ کے کہنے پر نیب نے نواز شریف کیخلاف ریفرنس فائل کیے، ریفرنس فائل کے وقت نواز شریف لندن میں تھے، نواز شریف قانون کا احترام کرتے، قانون کو ماننے والے شخص ہیں۔ نواز شریف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عالیہ نے نواز شریف کی سزا اور جرمانہ معطل کر دیا، معاملہ عدالت میں ہو تو حکومت مداخلت نہیں کرسکتی، 18 ماہ کے ٹرائل میں نواز شریف خود پیش ہوئے، ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو سزا دی گئی، میں انڈر ٹیکنگ دینے کیلئے تیار ہوں، نواز شریف صحتیاب ہونے کے بعد وطن آجائیں گے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ شہباز شریف آپ بتائیں کس طرح کی ضمانت دینے پر تیار ہیں؟ کیا نواز شریف واپس آئیں گے ؟ جس پر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کاکہنا تھا کہ نواز شریف صحتیاب ہونے کے بعد وطن آئیں گے۔ عدالت نے شہباز شریف سے استفسار کیا آپ کا نواز شریف کو وطن واپس لانے میں کیا کردار ہوگا ؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اپنے بھائی نواز شریف کے ساتھ بیرون ملک جا رہا ہوں۔ وکیل وفاق کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم اور نیب کی اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں 25 نومبر کیلئے مقرر ہوئی، حکومت بھی نواز شریف سے ضمانت ہی مانگ رہی ہے، نواز شریف واپس نہیں آتے تو قانون کے مطابق کارروائی ہوسکے گی۔ عدالت نے کہا کہ چاہتے ہیں معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہو، شریف برادران واپس آنے سے متعلق لکھ کر دیں۔ عدالتی حکم پر نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی کا ڈرافٹ لاہور ہائیکورٹ میں جمع کرا دیا گیا۔ ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریری یقین دہانی کا ڈرافٹ دو صفحات پر مشتمل تھا۔ ڈرافٹ میں کہا گیا کہ نواز شریف صحت مند ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے، نواز شریف واپس آکر اپنے عدالتی کیسز کا سامنا کریں گے، نواز شریف پاکستان کے ڈاکٹروں کی سفارش پر بیرون ملک جا رہے ہیں، بیرون ملک میں موجود ڈاکٹر جیسے ہی اجازت دیں گے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر نواز شریف واپس آئیں گے۔ نواز شریف کے وکیل نے ڈرافٹ عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ ہمیں ڈرافٹ پر اعتراض ہے، اس میں نہیں لکھا گیا کہ نواز شریف کب جائیں گے اور کب آئیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے ڈرافت کے جواب میں حکومت نے بھی ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے۔ حکومت جب سمجھے گی کہ نواز شریف کی حالت ٹھیک ہے تو حکومت اپنا بورڈ ملک سے باہر چیک اپ کے لیے بھیج سکتی ہے۔ بورڈ چیک کرے گا کہ نواز شریف سفر کر کہ ملک میں واپس آ سکتے ہیں یا نہیں۔ وکیل حکومت کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاص مدت کے لیے نواز شریف کی ضمانت منظور کی ہے، 25 نومبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف کیس کی مرکزی اپیل بھی مقرر ہے، سابق وزیراعظم کو عدالت کے سامنے پیش ہونا ہے، اگر نواز شریف نہیں آتے تو کیا ہو گا، اس لیے اینڈیمنٹی بانڈ مانگے ہیں۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا حکومت نے انسانی بنیادوں پر نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلہ کیا تھا، سابق وزیراعظم ٹائم فریم بتائیں کب جائیں گے اور کب واپس آئیں گے، نواز شریف اینڈیمنٹی بانڈ جمع کرائیں۔ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ ہر کوئی جانتا ہے نواز شریف کی صحت خراب ہے۔ وکیل نے کہا جواب میں حکومت نے بھی ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے، نواز شریف کے معائنے کیلئے حکومت بورڈ بیرون ملک بھیج سکتی ہے، بورڈ چیک کرے گا نواز شریف سفر کر کے ملک واپس آسکتے ہیں یا نہیں۔ وکیل نے کہا اگر نواز شریف بیمار ہیں تو اللہ انہیں صحت دے، سابق وزیراعظم کسی دکان پر برگر کھا رہے ہوں تو دوبارہ درخواست دائر کر دیں گے۔ وفاقی حکومت کے وکیل کے جواب پر عدالت میں قہقہہ لگا۔ عدالت نے کہا کہ نواز شریف کی صحت سے متعلق رپورٹ حکومت کو بھجوائی جاتی رہی، نواز شریف کا بیان حلفی مناسب لگ رہا ہے مگر شہباز شریف کے سہولت کاری کے لفظ کو یقین میں تبدیل کریں۔ شہباز شریف نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو انشا اللہ نواز شریف واپس آئیں گے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ شہباز شریف بیان حلفی دیں کہ نواز شریف واپس نہیں آتے تو جرمانے کی رقم ادا کریں گے۔ اس سے قبل عدالت کے باہر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سب دعا کریں فیصلہ نواز شریف کے حق میں آئے، نواز شریف کی صحت خراب ہے، نواز شریف کو اجازت ملے تو وہ بیرون ملک علاج کرا سکیں۔