سونے کے یہ شہر لاس ویگاس، نبراسکا، میسوری اور آرکنساس بھی ہو سکتے ہیں۔
بدقسمت ہسپانوی مہم جو فرانسسکو ویسکوئیس ڈی کورناڈو نے سات امیر ترین شہروں کا سن رکھا تھا۔ ”سونے کے سات شہروں“ کا قصہ کافی مشہور تھا۔ سب نے سن رکھا تھا کہ دنیا کے دوسرے حصے میں امیر ترین قوم رہتی ہے۔ جہاں مکانات، گنبد اور مینار سب کچھ سونے کے ہیں۔ عمارتوں سے ہی سے ہی ان کی امارت جھلکتی ہے۔ ان کے سونے کو پا لینے والا دنیا کا امیر ترین شخص بن سکتا ہے۔
مہم جو فرانسسکو نے بھی ہزاروں آدمیوں کے ساتھ اسی آس میں جان دے دی۔ اس کی مہم میں شامل ایک ہی شخص زندہ بچ پایا تھا، جس نے ان شہروں کی امارت کا قصہ دوسری سلطنت میں بیان کیا تو وہاں کا حاکم بھی سونا پانے کے درپے ہو گیا۔ ان قدیم شہروں کی تلاش میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں، مگر خزانہ کسی کے ہاتھ نہ لگ سکا۔ ایک مہم جو نے ان شہروں کے نام لاس ویگاس، نبراسکا، میسوری اور آرکنساس بھی ہو سکتے ہیں۔ آئیے ہم اس راز کو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔
1527ء میں فرانسسکو واسکویئس ڈی کو روناڈو اپنے 6 سو ساتھیوں کے ساتھ سفر پر نکلا۔ سفر کے پُرخطر ہونے کا اندازہ تھا۔ قذاق بھی راستے میں پڑتے تھے، کسی دشمن سے بھی مڈ بھیڑ ہو سکتی تھی، اسی لئے تربیت یافتہ ایک ہزار جنجگو بھی ساتھ لے لئے تھے۔ وہ آج فلوریڈا کہلائے جانے والے علاقے میں کہیں پایا جانے والا سونے لے اڑنا چاہتے تھے۔
سونا ہسپانوی لٹیروں اور باشندوں کی ہمیشہ سے کمزوری رہا ہے۔ اسی ساحل پر لٹیروں کا بھی غلبہ تھا۔ انہوں نے اپنی حکومت قائم کر رکھی تھی، جو بھی آتا یا تو مارا جاتا یا پھر سب کچھ لٹا کر واپسی کا راستہ لے لیتا تھا۔ ساحل سمندر پر پہنچتے ہی لٹیرے انہیں کنگال کر دیتے۔
فرانسسکو ہسپانوی لٹیروں کی نیت سے بخوبی واقف تھا۔ وہ لٹیروں سے الجھنے کی بجائے طویل، لمبے راستے پر ہو لیا۔ فلوریڈا کا ساحل بہت وسیع ہے، پھر اس کی فوج بھی زیادہ تھی۔ اس نے لٹیروں سے نمٹنے کے لئے لشکریوں کو آگے کر رکھا تھا۔ بظاہر اس کا پلان ٹھیک تھا۔ قذاقوں سے چھپنے کی دلیل بہت موثر تھی۔ کھانے پینے کا سامان بھی کئی ہفتوں کے لیے کافی تھا۔ سفر پر روانہ ہوئے کئی ہفتے ہو گئے، مگر منزل کوسوں دور تھی۔ جلد ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا۔ک ھانے پینے کا سازو سامان ختم ہونے لگا۔ سات شہروں کا دور دور تک نام و نشان تک نہ تھا۔ قذاقوں کے علاوہ مقامی باشندوں سے بچنے کی حکمت عملی سے نقصان بڑھنے لگا تھا۔ یہ شہری ان کی تکہ بوٹی کر دیتے۔
طویل سفر کے دوران انہیں میکسیکو میں امید کی کرن دکھائی دی۔ ویسکویئس نے مزید تاش جاری رکھنے کی بجائے روٹ کی تلاش میں میکسیکو کا قصد کیا۔ وہ ہمت ہار چکا تھا۔ وہ سمندر میں 8 برس تک ٹامک ٹوئیاں مارتا رہا۔ ہر لمحہ منزل قریب آتی دکھائی دیتی لیکن قریب پہنچتے تو سب کچھ سراب ہوتا۔ کئی ہزار میل کا سفر طے کرنے کے بعد فرانسسکو میکسیکو پہنچا لیکن سب ہی لوگ راستے میں مر کھپ گئے۔ اس کے علاوہ تین ہی زندہ بچے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ یہاں کی ابتدائی نسلوں میں شامل ہے۔ وہ امریکا کے جنوبی حصے کی لوگوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
دوران سفر ڈی واکا اپنی ڈائری لکھتا رہا۔ لوگوں کے رہن سہن، بولیوں اور اشیائے خورونوش کی تفصیلات رقم کرتا رہا۔ کالم نویسوں کے لیے اس کی یہ ڈائریاں انتہائی کارآمد ہیں۔ انہی ڈائریوں کے ذریعے وہ امریکا اور یورپ کے قدیم تعلق اور رہن سہن کا پتہ چلاتے ہیں۔
سونے کی تلاش کی یہ مہم ناکام ہوئی، وہ تقریباً خالی ہاتھ لوٹا۔ البتہ شمالی ٹیکساس میں تانبہ سازی کی صنعت نے چونکا دیا۔ یہ اس زمانہ میں نوزائیدہ تھی۔ تانبے کی قدرو قیمت میں سونے سے کم نہ تھی۔ بلکہ یہ دھات ان دنوں سونے سے بھی قیمتی تھی۔ تانبے کا ایک ٹکڑا فرانسسکو ڈی کو تھماتے ہوئے ایک مقامی باشندے نے کہا ” یہ مجھے شمال میں رہنے والے نے چونکا دیا“۔
بحفاظت واپسی کے بعد فرانسسکو سپین کے سفر پر روانہ ہوا۔ شمالی امریکی انڈینز کے بارے میں اس کی تحریروں نے اسے سپین میں مقبول شہری بنا دیا۔ اس کے زندہ بچ جانے والے دو باقی دو ساتھی یہیں تاریخ کا حصہ بن گئے۔ وہ خود بھی تھوڑے ہی دنوں میں تاریخ کے اوراق میں دفن ہو گیا۔ یہیں مرنے سے پہلے اس نے سات شہروں کے سیبولا لکھی۔