لاہور: اداکارہ ثنا نے کہا ہے کہ فلمی ستارے جس تقریب میں شرکت کرتے اس کو چارچاند لگ جایا کرتے تھے، مگر بدقسمتی سے آج ایسا کم کم دکھائی دیتا ہے تاہم ہمیں اس کیلیے محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
فلمی ستارے جس تقریب میں شرکت کرتے اس کو چارچاند لگ جایا کرتے تھے، ایوارڈ شو ہوںیا ٹی وی کا میگا ایونٹ فلمی ستاروں کی شرکت سے اس کی ریٹنگ آسمان کوچھونے لگتی تھی، مگربدقسمتی سے آج ایسا کم کم دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک فلم اسٹاردلکشی یا اسٹارڈم تو سب جانتے ہیں لیکن اس کو اپنانے کیلیے کوشش نہیں کی جاتی۔ یہی وہ کمی ہے جس کی وجہ سے فلمی ستاروں کو وہ مقام نہیں مل پارہا ، جس کی انھیں اشد ضرورت ہے۔ اس کیلیے محنت کرنے کی ضرورت ہے، وگرنہ فلمیں بنتی رہیں گی اورفنکاربھی آتے رہیں گے ، لیکن فلموں کا سپراسٹار بننا مشکل ہوجائے گا۔
ثنا نے کہا کہ ماضی میں پاکستان میں بننے والی سالانہ فلموں کی تعداد 100سے زائد ہوا کرتی تھی، نگارخانے فلمی ستاروں کی شوٹنگزکی وجہ سے جگمگاتے رہتے تھے، سینما گھروں میں فلموں کی کبھی سلور توکبھی گولڈن جوبلی ہوا کرتی تھی، فلم بینوں کی لمبی قطاریں سینما ہال کے باہر لگی ہوتی تھیں، کوئی بلیک میں ٹکٹ خریدتا تھا توکوئی سفارش کرواکر ٹکٹ حاصل کرتا ، ایک طرف سینما گھروں میں ہالی ووڈ کی فلمیں نمائش کیلیے پیش کی جاتی تھیں تودوسری جانب پاکستان کی اردو اور پنجابی زبان میں بننے والی فلموں کی نمائش ہوا کرتی تھی۔
اداکارہ نے بتایا کہ بزنس میں دونوں فلموں کو زبردست رسپانس ملتا تھا، اکثر و بیشتر ایسا ہوتا کہ کم بجٹ سے بننے والی پاکستانی فلمیں ہالی ووڈ کی کثیر سرمائے سے بننے والی فلموں کے مقابلے میں زیادہ بزنس کرتی تھیں۔ ثنا نے مزید بتایا کہ فلموں میں مرکزی کردار نبھانے والے پاکستانی فلمی ستارے جب کبھی اپنی فلم کا شودیکھنے سینما گھر پہنچ جاتے تووہاں موجود مرد، خواتین، بچے اوربزرگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کیلیے گیٹ پرجمع ہوجایا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کوئی بابرہ شریف کے ہیئراسٹائل کو اپناتا توکوئی ندیم کے ڈریسز کادیوانہ بن جاتا تھا، سنتوش کمار، محمد علی، وحید مراد، ندیم، شاہد، صبیحہ خانم، شمیم آراء، شبنم اوربابرہ شریف سمیت دیگرکے ڈریسز، ہیئراسٹائلز اورجوتوں کوکاپی کرتا توان کے ڈائیلاگ سنا کرایک دوسرے سے داد حاصل کرتے۔ بس یوں کہئے کہ یہ تمام باتیں اب خواب جیسی لگتی ہیں۔