1843ء میں انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کیا اور پھر سو سال تک انہوں نے اس سرزمین پر حکومت کی۔ اس سے قبل مغل اور میروں کی حکومت رہی۔ ان کی حکومت کا دورانیہ انگریزوں کی حکومت سے زیادہ رہا۔ اسی طرح عربوں نے اس سرزمین پر اپنا حکم چلایا لیکن جو سبق ہمیں سو سال میں انگریزوں نے پڑھایا وہ ہمیں اب بھی یاد ہے اورشاید رہتی دنیا تک یاد بھی رہے۔ تاہم مغل، میروں اور عربوں کی حکومت میں جو تہذیب، رواج اور تہوار تھے اسے ہم آج دقیانوسی مانتے ہوئے کب کے بھلائے بیٹھے ہیں لیکن اس کے برعکس انگریزوں کا سبق ہمیں ہر دور میں نیا ہی لگتا ہے۔ چند لاکھ انگریزہماری پوری تہذیب وتمدن کو بدل کر چل دیے، ہم لاکھوں بلکہ کروڑوں ہونے کے باوجود انہیں اپنے رنگ میں نہ رنگ سکے اور یہ ہماری سب سے بڑی ناکامی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھرمیں نئے سال کا استقبال آتش بازی کرکے کیاجاتا ہے جس پر اربوں ڈالر پھونک دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ یہاں بھی کروڑوں روپے نئے سال کی آمد پر صرف آتش بازی اور دیگر خرافات میں جھونک دیے جاتے ہیں۔ ہوائی فائرنگ، لڑائی جھگڑا، شراب وشاداب کی محفلیں اور بہت سی دیگر غیر ضروری اور غیر اسلامی رواجوں کے ذریعے جہاں ایک طرف پیسوں کی تباہی کا سامان پیدا کرتے ہیں دوسری طرف قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ضرورہے مگر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ہم دنیا کے دسویں نمبر پر بھی نہیں آتے۔ جس ملک کا بچہ بچہ ایک لاکھ چھبیس ہزار روپے کا مقروض ہو اس ملک کے حکمرانوں اور عوام کواپنا ہرقدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم یہاں صورت حال اس کے برعکس ہے۔
اخباری رپورٹوں کے مطابق گزشتہ سال نئے سال کی آمد کی خوشی میں ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں قریباً سو افراد جان سے گئے اسی طرح زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ شہر ہو یا گاؤں اب یہ رواج اتنا زور پکڑگیا ہے کہ عید کا چاند ہو یا جشن آزادی، نیا سال ہو یا پھر کسی رئیس زادے کی شادی، ہوائی فائرنگ اور آتش بازی کے استعمال کے بغیر اب ادھوری سمجھی جانے لگی ہے۔
آج کا پاکستانی ویسے تو امریکا کو کوستے نہیں تھکتا۔ ملک کے ہر کام کے بگاڑ کے پیچھے ہم انہیں کو مورد الزام ٹہراتے ہیں لیکن دوسری طرف ہم ان کی خرافات کو خوشی بخوشی قبول بھی کرتے رہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیت المقدس کے حوالے سے دیے گئے بیان پر پوری امت مسلمہ شدید غم وغصے میں ہے مگر دوسری طرف یہ ہی امت مسلمہ ہے جو انگریزوں کے رسم ورواج کے بغیر خود کو ادھورا سمجھتے ہیں۔ ان کے لباس سے لے کر ان کی اسلام دشمن پالیسیوں میں ہروقت لبیک لبیک کرتے رہتے ہیں۔ ایک طرف او آئی سی امریکا کی مخالفت کرتا ہے تو دوسری طرف سعودیہ عرب امریکا سے اپنی دوستی مضبوط کرنے کی ہرممکن کوششوں میں مصروف نظرآتاہے۔ کیا یہ مسلمان حکمرانوں کا مسلمان عوام کے ساتھ کھلا تضاد نہیں؟
ملک میں غیرملکی اور غیر قانونی اسلحہ کی بھرمار ہے۔ عموماً اعلیٰ ایوانوں سے یہ بازگشت سنائی دیتی ہے کہ ملک کو غیرقانونی اسلحے سے پاک کریں گے۔ ایپکس کمیٹی بھی اس پر توجہ دے رہی ہے مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر یہ غیرقانونی اسلحہ ملک میں کیسے آیا اور کس طرح شہروں میں پہنچا جس کی وجہ سے آج ہر دس میں سے ایک گھرمیں غیرقانونی اسلحہ دستیاب ہے۔ ہماری تمام تر توجہ شہروں سے غیرقانونی اسلحے کو نکالنے میں لگی ہوئی ہے تو دوسری جانب اس سے کہیں زیادہ غیرقانونی اسلحہ ملک میں آ بھی رہا ہے۔ ان کے خلاف کیا اقدامات کیے جارہے ہیں اس پرکوئی کچھ کہنے کو تیار نہیں۔
آج ملک کا بچہ بچہ بڑوں سے بغاوت پر اترا ہوا ہے۔ اگر کوئی سمجھانے کے لیے کوئی بات کہہ دے تو نتیجہ لڑائی جھگڑے کی صورت میں نکلتا ہے۔ معاشرہ بے راہ روی کی طرف تیزی سے گامزن ہے اور ہم آج بھی اپنی عیاشیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ انگریز ہمیں کبھی ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا اس لیے وہ ہمیں مصروف رکھنے کے لیے کئی محاذ پر کام کررہا ہے۔ کبھی وہ ہمیں نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیتا ہے تو کبھی ہمارے مذہب پر وار کرتا ہے لیکن ہم اس چیز کو سمجھنے سے بلکل قاصر ہوچکے ہیں۔ آج تک ہمارے کسی بھی بیان پر امریکی یورپی عوام نے کوئی ردعمل نہیں دیا یہاں تک کے ان کی حکومتیں بھی ہماری کسی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتی لیکن ہم ان کے سر درد کو بھی اپنا مسئلہ بناکر اس پر الجھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
اب ہمیں ان تمام سازشوں اور عوامل سے باہر نکل کر اپنے عوام اور اپنے ملک کے لیے بھی سوچنا ہوگا۔ اپنے نوجوان اور آنے والی نسلوں پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ انہیں معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کے لیے پر محنت کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ہم نے اس پرکوئی منصوبہ بندی نہ کی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم معیشت اورسی پیک کو لے کربیٹھے رہیں اور ہماری نوجوان نسل کسی اور راستے پر چل کر کل ہمارے سامنے دشمن کے طورپر کھڑی ہوجائے۔ ہمیں ان خرافات سے نکلنا ہوگا۔ ہمیں ان سازشوں کو سمجھنا ہوگا کیوں کہ ہم پاکستان سے ہیں اور پاکستان ہم سے ہے۔