کراچی کے حالات پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ سارے شہر میں چائنا کٹنگ کے نام پر کئے گئے قبضوں کے خلاف ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ سندھ حکومت کو دیکھو یا سرکاری افسران کو، ہر کو ئی سرپٹ دوڑا چلا جارہا ہے۔ عدالت کا حکم کیا ملا کہ کرپٹ اشرافیہ اپنی نیک نامی کی دوڑ میں لگ گئی تاکہ اپنے اپنے محکموں کو سرخرو کیا جاسکے اور عدلیہ سے داد وصول کی جاسکے۔ لیکن نہ تو ان افسران کو اور نہ ہی سندھ حکومت کو کوئی احساس ہے اور نہ ہی اخلاقی ذمہ داری کا ادراک ہے۔
بقول ایک وفاقی وزیر (کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے) لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ کہاں کی شرم، کہاں کی حیا؟ محترم عدالت نے تو شہر کے مفاد میں فیصلہ دیا کہ قابضین سے سرکاری اور رفاہی اراضی خالی کرائی جائے اور ایسا ہونا بھی چاہیے، مگرمعزز عدالت کے سامنے سرکار نے جو دستاویزات اور جو ثبوت پیش کیے ہوں گے، عدالت کو انہی حقائق کو مدنظررکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
ہم عدالت کے ہر فیصلے کا بہت احترام کرتے ہیں لیکن دست بستہ، انتہائی مؤدبانہ گزارش ہے کہ ایک بار معززعدالت ان قبضوں کے پیچھے چھپی اصل کہانیاں بھی منظرعام پرلانے کے احکامات صادر فرمائے کیونکہ اس سارے معاملے میں کرپٹ بیوروکریسی اور صوبائی حکومت مکمل طورپر ملوث ہیں لیکن مارے وہ لوگ جارہے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کی جمع پونجی، جس میں بیٹیوں کے جہیز کےلیے جمع کی گئی پائی پائی کے علاوہ تنخواہوں سے بچت کر کرکے بھری گئی کمیٹیوں کے پیسے یا پھربیٹیوں کی شادی کےلیے جوڑے گئے پیسے شامل ہیں، سب ان قبضہ مافیا کی بھینٹ چڑھا دیا؛ صرف اس لئے کہ بچوں کو ان کی چھت میسر ہوسکے اور وہ اس زمین کے ٹکڑے پر اپنا گھر بناسکیں۔
اب انہیں کیا پتا کہ وہ، پونپاں بائی کے راج میں، اپنا سب کچھ لٹانے چلے ہیں۔ چائنا کٹنگ کے خلاف مہم زوروں پر ہے لیکن کیا کوئی پوچھے گا کہ جو مکانات گرائے جارہے ہیں، ان کے پلاٹ کی کٹنگ سے لے کر ان پر دوتین منزلہ مکانات کی تعمیرتک سرکاری ادارے کہاں سوئے ہوئے تھے؟ اور یہ ادارے اس وقت بھی کیوں نہ جاگے جب ان مکانات کو بجلی، گیس اور پانی کے کنکشن دیئے جارہے تھے، کیوں نہیں روکا؟ اس وقت سرکار نے کیوں نہ کہا کہ نہ خریدو! یہ پلاٹ ناجائز ہیں۔ کیوں کارروائی نہ کی گئی؟ اس وقت چائنا کٹنگ کرنے والوں کو کیوں نہ روکا گیا جب وہ سفید پوش لوگوں کا سب کچھ اجاڑ رہے تھے؟
یہاں صرف چائنا کٹنگ کرنے والے یا قبضہ مافیا گناہ گار نہیں بلکہ ان سے بڑی گناہ گار تو سندھ حکومت اور وہ کرپٹ افسران ہیں جنہوں نے بڑے بڑے عہدوں پر ہونے کے باوجود کراچی کے مظلوم سفیدپوش لوگوں کو لٹنے دیا اور خاموش تماشائی بنے رہے۔ دوسروں کے جنازے میں شرکت کرنا اور بات ہے، کسی اپنے مرے ہوئے کو کاندھا دینا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے، اس کا اندازہ کسی اپنے کے مرنے پر ہی ہوتا ہے۔ کسی افسر کو اگر کوئی اچانک آکر کہے کہ اپنے پیسوں سے خریدے ہوئے جس گھر میں تم پانچ سال سے بیٹھے ہو وہ قبضے کا ہے، اس لئے کل تک خالی کرو ورنہ ہم گرادیں گے، تو وہ افسر صرف اتنا بتادے کہ اپنے بچے لے کر کہاں جائے گا کیونکہ اس قبضے کے پلاٹ پر گھر بنانے میں اپنا سب کچھ تو وہ نچھاور کرچکا۔
ذرا سوچیے ان لوگوں کا کیا قصور ہے جنہوں نے ان پلاٹوں کو چینلز اور اخبارات میں بڑے بڑے اور روزانہ چلنے والے اشتہارات دیکھ کر خریدا تھا تو اس وقت کے ایم سی، کے ڈی اے، کے بی سی اے، اینٹی انکروچمنٹ سیل، حکومت سندھ، اینٹی کرپشن اور دیگر متعلقہ محکمے کہاں ہنی مون منانے چلے گئے تھے؟ کیوں ایکشن نہیں لیا؟ گوٹھوں کے گوٹھ لوگوں نے فروخت کردیئے اور لوگوں نے اپنے بچوں کو چھت دینے کے چکر میں متاع حیات بھی لٹادی۔ اب وہ کس کے در پر فریاد کریں؟ کہاں جائیں؟ جن بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کےلیے کراچی کے بے بس شہریوں نے پلاٹ خرید کر چھوڑدیئے تھے کہ مہنگے ہونگے تو فروخت کریں گے، لیکن وہ تو چائنا کٹنگ کے پلاٹ نکلے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ کراچی کی عوام کو غریب کی بیوی سب کی بھابھی کیوں سمجھ لیا گیا ہے؟ کراچی کا باسی صبح جب گھر سے نکلتا ہے تو اسی وقت سے لٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ کہیں بائیک پر کاغذات اور لائسنس کے نام پر ٹریفک پولیس کی خرچی تو کہیں ناکے لگائے کھڑی پولیس کا چائے پانی یا پھر بائیک کھڑی کرنے کےلیے پارکنگ فیس کی ادائیگی۔ اور اگر ان سب فرائض کی ادائیگی کر بھی دی تو پولیس سے بے خوف ڈکیت سلام دعا کےلیے ٹکر جاتے ہیں اور دیدہ دلیری سے سب کچھ ہنستے کھیلتے لے جاتے ہیں۔
یہ سب کیا ہورہا ہے؟ کراچی شہر کا کوئی والی وارث ہے بھی یا نہیں؟ کوئی نہیں پوچھتا کہ چائنا کٹنگ یا پلاٹوں پر قبضے ہورہے تھے تو متعلقہ ادارے کہاں تھے؟ چائنا کٹنگ کو کیوں نہیں روکا؟ اگر انہیں نہیں روک سکتے تھے تو پھر خریدنے والوں کو آگاہی کیوں نہیں دی؟ کیوں ان بیچاروں کو نوسر بازوں کے رحم وکرم پرچھوڑدیا؟
گزشتہ چند روز میں متعلقہ اداروں نے درجنوں شادی ہالز کا دھڑن تختہ کیا ہے۔ یہ سب شادی ہالز کئی کئی سال سے ہر ماہ لاکھوں روپے کمارہے تھے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بغیرسرکاری سرپرستی کے یہ شادی ہالز چلتے؟ نہیں ناں! تو پھر ان کو کیوں نہیں پکڑا جنہوں نے سرکاری اراضی پر یہ شادی ہالز الاٹ کیے اور کروڑوں روپے کی کرپشن کی۔ ادھر عدالتی احکامات جاری ہوئے، اُدھر کے ڈی اے نے یک دم کارروائی شروع کردی، تو اس کا صاف مطلب ہے کہ کے ڈی اے کو پتا تھا کہ کہ کون کون سے شادی ہالز غیرقانونی تھے۔ تو پھر صرف شادی ہالز کیوں ٹوٹیں؟ ان افسروں کو بھی جیل میں ڈالا جائے جنہوں نے سرکاری اراضی کو اپنے باپ کا مال سمجھ کر ٹھیکیداروں اور قبضہ مافیا میں بانٹ دیا تھا۔
کراچی کا ہر شہری خوفزدہ ہے کہ نہ جانے کب اس کے گھر پر کے ڈی اے کے اہلکار نشان لگادیں کہ یہ گھر چائنا کٹنگ پر بنا ہوا ہے۔ ہرچوتھا شخص ڈر کی سولی پرلٹکا ہوا ہے۔ رینجرز نے برسوں کی محنت کے بعد شہر میں امن کی بانسری بجائی، لوگوں میں احساس تحفظ پیدا کیا۔ لیکن حکومتی لٹیروں اور کرپٹ اشرافیہ نے اپنے مفادات کےلیے کراچی کے شہریوں کے احساس تحفط کی بھینٹ دے دی۔ پائی پائی جوڑ کر اپنا گھرتعمیرکرنے والے گھروں میں آج بین ہے، ماتم ہے لیکن ان کا ماتم کون سنے؟ یہ راہِ گم گشتہ کے مسافر بنے ہوئے لوگ ہیں جنہیں اپنوں ہی نے مارا اور پھر رونے بھی نہیں دیا۔
جن لوگوں کے گھر آج چائنا کٹنگ کی زد میں ہیں، ان لوگوں نے پلاٹ یا مکان خریدنے سے پہلے سرکاری اداروں سے مکمل تسلی کی ہوگی، انہیں کن افسران نے این او سی دیا؟ کس نے بجلی، گیس اور پانی کے کنکشن لگانے کےلیے این اوسی جاری کیے؟ کیا ان سوالوں کے جواب کسی سرکاری ادارے کے پاس ہیں۔ اگر نہیں ہیں تو پھر معزز عدالت سے اپیل ہے کہ کراچی کے باشندوں سے کھیلے گئے اس گھناﺅنے کھیل کے اصل کرداروں، انسانی گوشت نوچنے والے کرپٹ اشرافیہ کو بے نقاب کیا جائے؛ اور یہ بھی التماس ہے کہ عدالت عظمیٰ حکومت سندھ کو احکامات جاری کرے کہ کسی کا گھر گرانے سے پہلے یا تو معاوضہ ادا کرے یا متبادل رہائش فراہم کرے کیونکہ جرم چائنا کٹنگ پر تعمیرگھر خریدنے والوں نے نہیں کیا بلکہ سرکاری کارندوں اور قبضہ مافیا نے مل کر یہ تباہی مچائی ہے جو سیکڑوں گھروں میں آج ماتم برپا ہے۔
خدارا کچھ تو سوچیے کہ کراچی کے باشندوں کو کس بات کی سزا دی جارہی ہے؟ کیوں ان کے درد کا درماں نہیں کیا جاتا؟ جن وڈیروں کے ہاتھوں میں ملک کے اس سب سے بڑے شہرکی قسمت اور پگڑی دے دی گئی ہے، یہ تو آدم خور شکرے ہیں۔ انہوں نے تو اپنے گوٹھ گاﺅں تک ویران کردیئے۔ جو اپنے علاقوں کا بھلا نہ کرسکے وہ اتنے بڑے شہر میں برپا ماتم کی گونج کہاں سن پائیں گے؟
خدا کےلیے اس سارے آپریشن میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے کیونکہ چند دن بعد قانونی موشگافیاں مکمل کرکے خالی کرائی گئی سرکاری اراضی پھر فروخت ہورہی ہوگی۔ نئے چہرے سجا کر نئے نام سے لٹیرے پھرمیدان میں اترجائیں گے۔ کراچی کے شہری ایک بار پھر اعتبار کی بھینٹ چڑھیں گے۔ اس لیے اپیل ہے کہ سارے معاملے میں کراچی کے شہریوں کا مفاد بھی مدنظررکھاجائے، ان کو دن دہاڑے سرکاری لبادے میں لوٹنے والوں کو بھی پکڑا جائے، شہریوں کی داد رسی کی جائے کیوں کہ یہ بات تو اٹل ہے کہ
گر آج میں زد پہ ہوں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں