counter easy hit

اسرائیلی وزیرا عظم کا دورہ بھارت اور اس کے مستقبل میں اثرات

تحریر :مزمل حسین سید
ISRAEILI, PRIME, MINISTER, VISIT, TO,, INDIA, THE, REASONS, BEHIND, AND, DEALS, IN, BILLIONSاسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو 6 روزہ دورے پر بھارت پہنچ گئے ہیں اور ان کے ساتھ 130 رکنی وفد بھی ہے جس میں زیادہ تر کاروباری اور دفاعی شخصیات شامل ہیں ۔ ہندوستانی میڈیا کی جانب سے اس دورے کو تاریخی قرار دیا ہے جس میں دونوں ممالک تجارت اور دفاع کے ساتھ ساتھ سفارتی تعلقات کو فروغ دیں گے۔اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کا دورہ بھی کریں گے جہاں وہ مودی سے تفصیلی گفتگو کریں گے۔ علاوہ ازیں اسرائیلی وزیرِاعظم ممبئی، احمد آباد اور آگرہ بھی جائیں گے۔ نئی دہلی میں 15 جنوری کو انڈو اسرائیل سی ای او فورم منعقد ہوگا جبکہ نتن یاہو 16 جنوری کو ایک بڑی تقریب سے خطاب بھی کریں گے۔ بھارتی صدر رام ناتھ کووند سے بھی ملیں گے۔ صہیونی وزیر اعظم کے اس دورے کے موقع پر تین مورتی یادگار کو تین مورتی حیفہ چوک کا بھی نام دیا گیا ہے۔

امریکہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط اور دوستی نے بھی ان دونوں ممالک کو مزید قریب لانے کا سبب بن رہا ہے۔بھارت اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کا آغاز 1992 میں ہوا تھا۔ اس وقت ان دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کا حجم 200 ملین ڈالرز تھا، تاہم اس تجارت میں تیزی سے اضافہ ہوا اور گزشتہ برس یہ حجم 4.16 بلین امریکی ڈالرز تک پہنچ گیا۔بھارت اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی تجارت کی راہ میں بعض رکاوٹیں بھی دیکھی گئی ہیں جن میں سے ایک بھارت کی طرف سے گزشتہ برس مارچ میں اسرائیلی کمپنی رافائل ایڈوانسڈ ڈیفینس سسٹمز لمیٹڈ کے ساتھ اس معاہدے کو دستخط ہونے سے قبل ہی ختم کر دینا بھی شامل ہے جو ٹینک شکن میزائلوں کی خرید سے متعلق تھا اور جس کی مالیت 500 ملین امریکی ڈالرز تھی۔اس کے علاوہ بھارت نے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بھی خلاف ووٹ دیا تھا جس میں انہوں نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔دوسری جانب اسرائیل اور بھارت کے درمیان ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک قبضہ گروپ ہیں دونوں ممالک نے دو قوموں کو زبردستی غلام اور ان کی زمینیوں پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ کشمیر اور فلسطین کے ایشوز کا آغاز کا وقت بھی مشترک ہے دونوں مسئلوں کا وجود بھی ان دونوں ممالک سے جڑا ہوا ہے ۔

سال 2003 میں سابق اسرائیلی وزیرِاعظم ایریئل شیرون بھی بھارت کا دورہ کر چکے ہیں جبکہ اب 15 برس بعد کسی اسرائیلی وزیرِاعظم کا یہ پہلا بھارتی دورہ ہے۔ گزشتہ برس جولائی میں وزیرِاعظم نریندر مودی اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں۔اس موقع پر اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا کہ بھارت ایک عالمی طاقت ہے اور اسرائیل کے لیے ایک نعمت ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان، معاشی، سیکیورٹی، سیاحتی اور تجارتی تعلقات بڑھانے کی ضرورت ہے۔دوسری جانب تیل و گیس کی تلاش، رینیوایبل انرجی، ایئرپورٹ پروٹوکولز، سائبر سیکیورٹی، مشترکہ فلم سازی کے مفاہمتی معاہدوں کی یادداشت پر بھی دستخط ہوں گے۔

گذشتہ 25 سالوں میں 10 ارب ڈالر کا سودا ہو چکا ہے۔اسرائیل کی ایک فیکٹری میں بھارت کے لئے ڈرونز بنائے جا رہے ہیں۔انڈیا کی مسلح افواج سالوں سے ان ڈرونز کا استعمال کر رہی ہیں۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو اتوار کو انڈیا کے چار روزہ دورے پر دہلی پہنچنے کے بعد ان کا سب سے بڑا چیلنج انڈیا سے اسرائیل کے رشتے کو مزید مستحکم کرنا ہے ۔
لیکن ایک ایسے وقت میں اسرائیلی و زیرا عظم کے دورہ بھارت کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے ۔ بھارت اسرائیل کا گٹھ جوڑ پاکستان کے لئے کافی تشویش کا باعث بن رہا ہے ۔ پاکستان جو ہمیشہ سے فلسطینی کاز کا مکمل حمایتی رہا بلکہ ہمیشہ اس اٹل موقف کی وجہ سے اسرائیل کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکٹتا آیا ہے ۔ تو دوسری طرف مسئلہ کشمیر کے مسئلہ کی وجہ سے بھارت پاکستان کو نیچا دکھانے کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے ۔تو ایسی صورتحال اور وقت پر اسرائیلی وزیرا عظم کے دورہ نے کئی سوالات اور خدشات کو جنم دینے کا سبب بناہے ۔

ایک ایسے وقت میں جب امریکی صدر کی جانب سے القدس الشریف کو اسرائیلی دارلحکومت تسلیم کئے جانے کے اعلان کے بعد پوری دنیا اور بالخصوص امت مسلمہ میں ایک احتجاجی لہر جاری ہے۔تو دوسری طرف امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ دھمکی آمیز بیانات کے تناظر میں معاملات کافی بگڑے ہوئے ہیں۔ جبکہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے بھارت کے ساتھ صورت حال قیام پاکستان سے کشیدہ چلی آ رہی ہے ۔ کشمیری عوام کو کچلنے میں بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ پہلے ہی منظرعام پر آ چکا ہے۔ سابق اسرائیلی وزیرا عظم کے دورہ بھارت کے موقع پرکشمیر پر غاصبانہ قبضہ کو مضبوط بنانے کے لئے دیئے گئے مشوروں پر عملدرآمد جاری ہے اور فلسطینی عوام کو کچلنے کے اسرائیلی طور طریقے اور تجربات کو بھارت کشمیر میں بھی آزمارہا ہے جن میں ڈیموگرافک تبدیلی کے ساتھ ساتھ پیلٹ گن کا استعمال بھی شامل ہے ۔ دفاعی شعبے میں انڈیا کے اسرائیل کے ساتھ گہرے روابط ہیںجو پاکستان کے لئے بھی تشویشناک ہیں ۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کا دورہ بھارت اس حوالے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ ماضی میں جوانڈیا اسرائیل تعلقات کارومانس تھا وہ بھی ماند پڑ تا جا رہا ہے اور وہ اس کے لئے حال ہی میں بھارت کی جانب سے اسرائیل کو سفارتی اور اقتصادی ،ان دھچکوں کو بطور مثال پیش کرتے ہیںجن کے سبب تعلقات کی گرمجوشی میں کمی آئی ہے۔ بھارت نے حال ہی میں اقوام متحدہ میں بیت المقدس کو اسرائیلی دارلحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے پر فلسطین کے حق میں ووٹ دے کر دھچکہ دیا تھا جبکہ ایک دھچکہ اس وقت لگا جب انڈیا نے اچانک اسرائیل کے ساتھ نصف ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کو منسوخ کر دیا لیکن دفاعی اور سفارتی مبصرین نے ان دونوں واقعات کو دوسری عینک سے دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ۔

بیت المقدس کے معاملے پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکہ و اسرائیل کی حمایت نہ کر نے کے پیچھے بھارت کا مقصد مسلمانوں کی حمایت یا فلسطینیوں کا درد نہیں تھا بلکہ وہ تو اپنی رہی سہی عزت بچانے کیلئے اور اپنے اوپر اوڑھے نام نہاد جمہوریت اور انسانی حقوق کا نقاب اتار کر ننگا نہیں ہونا چاہتا تھا چونکہ پوری عالمی برادری ایک طرف کھڑی تھی ۔دراصل اس چھاپ کو لگنے سے خود کو بچانے کی بھارتی سعی تھی کہ وہ امریکہ یا اسرائیل کا دم چھلا نہیں ہے۔

بھارتی خارجہ امور کی وزارت نے کہا ہے کہ دونوں ممالک متوقع طور پر سائبر سیکیورٹی، توانائی، خلائی تحقیق پر تعاون اور فلمسازی کے شعبوں سے متعلق معاہدوں پر دستخط کریں گے۔ اس کے علاوہ ٹیکنالوجی، پانی اور زراعت کے شعبوں میں کیے گئے ان معاہدوں پر پیشرفت کے بارے میں بھی بات چیت ہو گی جو گزشتہ برس مودی کے دورہ اسرائیل کے موقع پر کیے گئے تھے۔

دفاعی وسفارتی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ کے بعد اسرائیل سے بڑھتے ہوئے تعلقات میں رومانس کے اثرات لا محالہ طور پر پاکستان اور کشمیریوں کے لئے تو خطرے کی گھنٹی ہیں ہی لیکن یہ اثرات صرف پاکستان بھارت کی سرحدوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اس کے اثرات مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر بھی پڑیں گے، مستقبل میںاس سے امت مسلمہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گی ۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website