سیاست میں کوئی بھی حرف گو حرف آخر نہیں کہلاتا اور نہ ہی آنے والے مستقبل کو سو فیصد من و عن بیان کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حقائق اور اعدادو شمار کی بنا پر اندازے ضرور لگائے جا سکتے ہیں اور اکثر اوقات یہ اندازے یا تجزیات درست ثابت ہوا کرتے ہیں۔ اس وقت ملک میں کروائے گئے مختلف سیاسی سروے اس امر کی نشاندہی کرتے نظر آ رہے ہیں کہ اگلے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک بار پھر وفاق اور پنجاب میں تن تنہا حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ ان سرویز کو پنجاب میں ہونے والے تقریبا تمام ضمنی انتخابات کے نتائج بھی ایک حد تک بے حد درست اور پر حقیقت ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
نواز شریف کی انتخابی و عوامی مقبولیت وہ راز ہے جو اکثر یا تو ناقدین کی سمجھ سے باہر رہتا ہے یا پھر جسے یہ ناقدین جانتے بوجھتے سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ ملکی سیاست کے بدلتے ہوئے زمینی حقائق کا سب سے بہتر ادراک نواز شریف نے کیا۔ نواز شریف اس حقیقت کو بہت اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ اب ووٹر محض جماعتی وابستگی کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیتا۔ ووٹر اب سیاسی جماعتوں کی پرفارمنس دیکھتا ہے۔ چنانچہ نواز شریف نے انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے بڑے بڑے منصوبوں پر فوکس کیا۔ ملک میں جاری توانائی کے بحران کے خاتمے کیلئے کاوشیں شروع کیں۔ نواز شریف اس حقیقت کو بھی اچھی طرح سمجھ گیا کہ عالمی حالات اور دنیا یکسر تبدیل ہو چکے ہیں اور اب اقوام عالم یا ہمسایوں سے نفرت پر مبنی بیانئیے قابل قبول نہیں رہے ہیں۔ چنانچہ نواز شریف نے اپنا انداز سیاست بدلا اور اپنی جماعت کو ایک روایتی قدامت پرست جماعت سے تبدیل کرتے اسے ایک لبرل ،ترقی پسند اور اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ جماعت کے طور پر از سر نو تشکیل دیا۔
نواز شریف کو 2014 سے ہی اس کی ڈکٹیشن نہ لینے والی عادت کی وجہ سے ایسٹیبلیشمنٹ نے زیر عتاب بنایا۔ کبھی عمران خان اور کبھی طاہر القادری کے ذریعے حکومت کو گرانے کی سازشیں کی گئیں تو کبھی میڈیا کے ذریعے منظم اور بھرپور مہم چلا کر نواز شریف کو ملک کے تمام مسائل کی جڑ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ عدلیہ کے ذریعے نواز شریف کو شکار کرنے کے بعد پس پشت قوتوں کا خیال تھا کہ شاید مائنس نواز شریف کے بعد مسلم لیگ نون کے ٹکڑے ہو جائیں گے اور ملکی سیاست سے باآسانی نواز شریف کو نکال باہر پھینکا جائے گا۔ لیکن اس کے برعکس ڈس کوالیفییکیشن کے بعد نواز شریف نے نہ صرف پنجاب سے ہمدردی حاصل کی بلکہ اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانئیے کی بنیاد بھی رکھ دی۔
تمام حربوں میں ناکامی کے بعد پس پشت قوتوں نے مذہب کا انتہائی خطرناک کارڈ کھیلتے ہوئے نواز شریف کے ووٹ بنک کو توڑنے کی کوشش کی لیکن اس میں بھی انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ چکوال کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ اس ضمن میں ثبوت ہے جہاں مسلم لیگ نون نے پہلے سے بھی زیادہ اور بھاری مارجن سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔ دوسری جانب آصف زرداری اور عمران خان نوشتہ دیوار پڑھنے سے قاصر رہے۔ آصف زرداری کی جوڑ توڑ کی سیاست نے گو بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ نون کو نقصان پہنچایا اور اسے اپنی صوبائی حکومت سے ہاتھ بھی دھونے پڑے لیکن اس عمل کا کوئی بھی خاص فرق انتخابی سیاست پر پڑتا نہیں دکھائی دیتا۔ پنجاب سے پیپلز پارٹی کی انتخابی سیاست کا تقریبا صفایا ہو چکا ہے اور خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے انتخابی محاذ پر بھی اس جماعت کیلئے حالات کچھ موزوں نہیں دکھائی دیتے۔ تحریک انصاف اور عمران خان کو قدرت نے ایک سنہرا موقع فراہم کیا تھا کہ وہ خیبر پختونخواہ میں اپنی صوبائی حکومت کو مثال بناتے ہوئے ترقیاتی کاموں کی بھرمار کر دیتے تا کہ وطن عزیز کے دیگر صوبوں کے ووٹرز ان کی جانب مائل ہوتے لیکن اس کے برعکس عمران خان نے اپنی ساری توجہ اور توانائیاں صرف مسلم لیگ نون کی حکومت کو گرانے میں صرف کر دیں۔
آئے روز کے دھرنوں اور احتجاج کو عوام بالخصوص پنجاب کے ووٹرز نے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ عمران خان کی بد زبانی اور ان کے نظریات سے اختلاف کرنے والوں پر ان کی جانب سے انتہائی غیر اخلاقی الزامات نے انہیں ووٹرز کی نظر میں مزید گرا دیا۔ عمران خان نے شہری علاقوں کی اپر مڈل اور مڈل کلاس کے نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کر کے یہ سمجھا تھا کہ وہ مسلم لیگ نون کے سیاسی قلعے میں نقب لگانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ لیکن ان کی جماعت کے کمزور تنظیمی ڈھانچے اور ان کی ایسٹیبلیشمنٹ اور مذہبی شدت پسند جماعتوں کے ساتھ الحاق نے ان کی اس مقبولیت میں بھی کمی پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ عمران خان یہ حقیقت سمجھنے سے قاصر رہے کہ ایسٹیبلیشمنٹ اور مذہبی طاقتوں کے دم پر انتخابی فتوحات کا دور بیت چکا ہے۔
دوسری جانب نواز شریف نے مریم نواز کو اپنے جانشین کے طور پر لانچ کر کے نوجوانوں میں کھوئی ہوئی مقبولیت بھی واپس حاصل کر لی۔ مریم نواز نے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی بہترین مینیجمنٹ کرتے ہوئے نہ صرف ایسٹیبلیشمنٹ اور سیاسی مخالفین کے بیانیوں کے مخالف اپنی جماعت کامضبوط بیانیہ تیار کیا بلکہ مڈل کلاس اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی اپنی جماعت کی طرف راغب کرنے میں کامیاب رہیں۔ اس دوران نواز شریف نے ذوالفقار علی بھٹو کی مانند جذبات سے کام لیتے ہوئے اپنے لیے تمام دروازے بند نہیں کئیے۔ انہوں نے خود برے پولیس والے کا کردار ادا کرتے ہوئے ایسٹیبلیشمنٹ اور عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے دبائو برقرار رکھا اور اپنے بھائی وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو اچھے پولیس والے کا کردار نبھانے دیا۔ ایک جانب نوازشریف ایسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیہ تیار کرتے چلے گئے اور دوسری جانب شہباز شریف ایسٹیبلیشمنٹ کی سائڈ پر کھڑے نظر آئے۔ اس اچھے اور برے پولیس مین والی حکمت عملی نے نواز شریف کو ملکی سیاسی تاریخ میں وہ پہلا سیاسی رہنما بنا دیا جسے حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن میں رہنے کا بھی منفرد موقع مل گیا۔
موٹر وے اور سڑکوں کے جال، سی پیک ، میٹرو بس،اورنج ٹرین، تعلیم و صحت کی ریفارمز اور لوڈ شیڈنگ کے بحران پرقابو پانا۔ ان اقدامات کی ایک طویل فہرست اس وقت نواز شریف اور ان کی جمات کے پاس موجود ہے جس کے دم پر وہ ووٹرز سے باآسانی اپنی پرفارمنس کے دم پر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کے پاس ایک بھی ایسا میگا پراجیکٹ نہیں ہے جو ان کی سیاسی قابلیت کی گواہی دے سکے۔ جلائو گھیرائو کی سیاست اور ہمہ وقت شریف خاندان پرتنقید نے ان کی میڈیا ریٹنگ کو تو قائم رکھا لیکن پنجاب کے ووٹرز نے اس طرز سیاست کو بری طرح سے مسترد کیا جس کا ثبوت لوکل باڈی انتخابات اور ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں۔
سیاست ہمیشہ ٹھنڈے مزاج اور دماغ کے ساتھ کی جاتی ہے۔ نواز شریف نے عمران خان اور اپنے سیاسی مخالفین کو جان بوجھ کر اپنے خلاف تمام کارڈذ استعمال کرنے دئیے۔ 2014 کے دھرنوں سے لیکر شہروں کو لاک ڈاون کرنے جیسے اقدامات دراصل نواز شریف کا سیاسی قد بڑھاتے رہے اور سیاسی مخالفین کو ترقی اور جمہوریت دشمن قوتوں کے طور پر اپنے حلقہ انتخاب میں ثابت کرنے میں بھی معاون ثابت ہوئے۔ مخالفین نے ہمہ وقت احتجاج اور تنقید کر کے بذات خود نواز شریف کو سیاست کا محوربنائے رکھا اور آج ملکی سیاست نواز شریف کے گرد ہی مرکوز دکھائی دیتی ہے۔
نواز شریف اور انکی جماعت اس وقت وہ واحد ملکی رہنما اور جماعت نظر آ رہے ہیں جو تین بار عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعد تین دفعہ ملکی ایسٹیبلیشمنٹ سے ڈسےجانے کے باوجود چوتھی بار بھی انتخابات جیتنے کی صلاحیت اور امکانات رکھتے ہیں۔ ملکی نادیدہ قوتوں کو بیک فٹ پر دھکیلنے کیلئے یقینا نوازشریف نے بین الاقوامی ایسٹیبلیشمنٹ سے اپنے تعلقات کو بھی خوب کیش کروایا اور جس وقت عدالت کے ذریعے انہیں شکار کیا گیا نواز شریف نے ملکی محاذ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ذریعے بھی طاقت کی شطرنج پر اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ اس وقت ایک اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانیئے اور ترقیاتی کاموں کی لمبی چوڑی فہرست کے ساتھ وہ تمام فریقین پر بھاری پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
انتخابی امیدواروں اورحلقوں کی سیاست کو مینیج کرنے میں بھی نواز شریف کا کوئی ثانی نہیں دکھائی دیتا۔ صیح وقت اور صیح جگہ پر اپنے پتوں کا استعمال کرنے کے فن کی بدولت اور ترقیاتی کاموں کی لمبی چوڑی فہرست کےدم پر نواز شریف پنجاب کی حدتک ایک ایسی سیاسی قوت بن چکے ہیں جسے بیلٹ باکس اور ووٹ کے ذریعے شکست دینا ناممکن نظر آتا ہے۔ ملکی سیاست میں جو پنجاب کا انتخابی معرکہ مار لے وہی وفاق میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب رہتا ہے۔ حالات وواقعات بتاتے ہیں کہ اب انتخابات میں پس پشت قوتیں عمران خان یا طاہر القادری جیسےمہروں کےدم پر نواز شریف کو زیر نہیں کر پائیں گی۔