میڈیا انڈسٹری کے لیے سابق آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا دورہ حکومت اور جمہوری دور بڑا زبردست ثابت ہوا کیونکہ انہی دنوں میڈیا کو آزادی نصیب ہوئی جس کے بعد ملک میں ایک بڑا انقلاب نمودار ہوا۔
پہلے کے ادوار میں جب صرف دو چیلنز آتے تھے یا پھر لوگ ریڈیو پر خبریں سنتے تھے تو محلے کے بزرگ نماز مغرب کے بعد کسی چبوترے یا چارپائی پر جمع ہوتے اور ادھر اُدھر کی ہینکا پھینکی کرتے تھے، اُن میں سے جو پڑھے لکھے تھے وہ اخبار پڑھ کر خبر بھی سنا دیتے تھے۔
میڈیا کی آزادی کے بعد آہستہ آہستہ یہ روایت ختم ہوگئی کیونکہ اب مغرب کے بعد سے رات 12 بجے تک وہی کام مختلف ٹی وی چیلنز پر ٹاک شوز کے نام سے ہونے لگا، ابتدائی ایام میں تو ان پروگرامز کے لیے باقاعدہ صحافی رکھے گئے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اچھے صحافی پیچھے رہ گئے اور پھر ڈاکٹر ، انجیئنر یا دوسرے شعبے کے لوگ جنہیں صحافت کا علم نہیں وہ اپنی اونچی آواز، خوبصورت اندازِ بیان، کرسی پر بیٹھ کر اچھلنے جیسے کام کر کے صف اول کے صحافی بن بیٹھے۔
کوئی بھی صحافی ثبوتوں اور شواہد کی بنا پر بات کرتے ہوئے عوام کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے مستقبل پر تبصرہ کرتا ہے جسے صحافتی زبان میں (تجزیہ) کہا جاتا ہے مگر اس کے برعکس اینکر پرسن خواہش کو خبر اور انکشاف کر کے پیش کرتا ہے۔
صحافی کی کوشش اصل خبر قارئین یا ناظرین تک پہنچانا ہے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو پرچی سسٹم، کسی مقتدر حلقے کی سفارش پر کرنٹ افیئرز کے پروگرام کر رہے ہیں، ایک خاص ایجنڈے اور املاء کو لے کر آپ کی اسکرین پر نظر آتے ہیں اور اُن کی باتیں بے سر و پیر ہوتی ہیں مگر بھلا ہو ہماری معصوم عوام کا جو صرف سنسنی سننے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
ماضی میں بھی متعدد بار صحافی بن کر بیٹھے اینکرز نے بارہا انکشافات کیے اب یہ ہوجائے گا، چند منٹ کی بات ہے، فلاں تاریخ کو تو حکومت ختم ہی ہوجائے گی، نوازشریف سعودی عرب سے واپس نہیں آئیں گے۔ انہوں نے نیب سے راہ فرار اختیار کرلی ہے۔ ایسے اور اس سے بڑے سنگین اور مضحکہ خیز انکشافات ماضی میں بھی کیے گئے جو جھوٹ کا پلندا ثابت ہوئے مگر مجال ہے جو کسی اینکر نے غلط خبر پر معافی مانگی ہو۔
اینکر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی خواہش کو خبر بنا کر اس طرح پیش کرے کہ بس وہی حرف آخر یا پتھر پر لکیر ہے اور آئندہ وہی ہوگا جیسا مذکورہ شخص کیمرے کے سامنے بیٹھ کر بول رہا ہے۔
قصور میں ننھی زینب کا قتل اور مبینہ مرکزی ملزم کی گرفتاری جیسے افسوسناک واقعے پر کئی اینکرز نے پروگرام کی ٹی آر پی بڑھانے کے چکر میں ماضی میں متاثر ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ کو بلایا اور ان سے عجیب و غریب سوالات پوچھے، بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ یہاں تک بھی ہوا کہ کسی نے یہ تک دعویٰ کردیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والا شخص ڈی پی او قصور ہے۔
ابھی پرسوں کی بات ہے کہ ملک کے نامور اور جانے مانے اینکر نے اپنے ٹاک شو میں ایک گھنٹے تک تہلکہ خیز انکشافات اور بڑے بڑے دعویٰ کیے۔ انہوں نے بتایا کہ زینب قتل کیس صرف ذیادتی اور قتل کا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک مافیہ سرگرم ہے جو کہ بچوں کی پورنوگرافک ویڈیوز بنا کر باہر بیچ رہا ہے اور اس کام میں ایک وفاقی وزیر بھی ان کی مدد کر رہا ہے۔
بھلا ہو چیف جسٹس کا جنہوں نے پروگرام دیکھا اور ازخود نوٹس لیتے ہوئے اینکر کو سپریم کورٹ طلب کیا اور پروگرام سے متعلق سوالات پوچھے، رسٹروم پر کھڑے ڈاکٹر شاہد مسعود جو بات خبر بنا کر اپنے پروگرام میں پیش کررہے تھے وہ کمرہ عدالت میں چیف جسٹس سے یہ کہتے نظر آئے کہ میری باتوں کی تحقیقات کی جاسکتیں ہیں۔
ہاں مگر ایک دلچسپ بات یہ کہ ڈاکٹر صاحب جن دو وزیروں کو ان گھناؤنے یعنی پورن انڈسٹری کے دھندے میں ملوث قرار دے رہے تھے وہ کمرہ عدالت میں گھٹ کر ایک ہوگیا تھا مگر اپنی عادت سے مجبور سماعت کے بعد ڈاکٹر صاحب نے میڈیا کے سامنے پھر سے بڑے بڑے دعویٰ کیے جس کے بعد انہیں تقریبا ہر چینل نے اپنے پروگرام میں مدعو کیا۔
وسیم بادامی کے پروگرام میں کاشف عباسی نے ڈاکٹر شاہد مسعود سے سوال کر کے پوچھا کہ کیا یہ باتیں تجزیہ ہیں یا پھر خبر۔ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب اپنی مخصوص دھبڑ دھس گھن گھرج میں بولے، “دیکھیں رانا ثنا اللہ دھمکیاں دینے لگے، حکومت نے میرے خلاف خبریں تیار کرلیں”۔ اتنی چیخ بکار کے درمیان وہ اینکر المعروف سینئر صحافی عرف تجزیہ نگار کاشف عباسی کے سوال کا واضح جواب نہ دے سکے۔
آج سٹیٹ بنک آف پاکستان نے اعلان کر دیا ہے کہ زینب قتل کیس کے ملزم عمران کا کوئی بھی بنک اکائونٹ نہیں ہے، اس کے بعد ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ جو دعویٰ کل تک ڈاکٹر شاہد مسعود چیخ چلا کر کر رہے تھے آج اسی کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ تحقیقات کروانا حکومت کا کام ہے۔
اس واقعے سے تو بس ایسے لگتا ہے کہ صحافت کا جنازہ بس اٹھنے ہی والا ہے۔