مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس سے متعلق امریکی صدر ٹرمپ نے 6 دسمبر 2017 کو ایک اعلان اور فیصلہ سناتے ہوئے القدس کو غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس حوالے سے ضروری امر یہ ہے کہ مسلمان اور مسیحی معاشروں میں موجود باشعور افراد اور دانشور اس اعلان سے پیدا شدہ خطرات اور مستقبل میں القدس، یعنی یروشلم شہر اور فلسطین کے مستقبل کے بارے میں پیدا ہونے والے سنگین خدشات سے متعلق اپنے معاشروں کو آگاہی فراہم کریں اور امریکا کے منفی ہتھکنڈوں کی بدولت دنیا میں پھیلنے والی انارکی کا راستہ روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
مختصراً یہ عرض کرتا چلوں کہ گزشتہ چند برسوں میں امریکی سیاست کو جس بری طرح ناکامیوں کا سامنا رہا ہے، شاید تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہ رہا ہوگا۔ لہذا اب امریکا ہر صورت اسرائیل کی خوشنودی اور اس کے تحفظ کی خاطر اپنے ان تمام ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے جنہیں کبھی امریکا کہ جانب سے داعش کو بناکر حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو کبھی پاکستان سمیت دنیا بھر کے متعدد ممالک کی سرحدی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے ان ممالک میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرکے انجام دینے کی کوشش کی گئی۔
بہرحال شام، لبنان، عراق، ایران، پاکستان اور افغانستان سمیت متعدد مقامات پر امریکی منصوبے خاک ہوچکے ہیں۔ تاہم ایسے وقت میں القدس کےلیے ایسا اعلان کرنا کہ القدس غاصب صہیونی اور جعلی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت ہوگا، یقیناً یہ اعلان اپنے اندر خطرناک عزائم لیے ہوئے ہے جو صرف فلسطین و القدس تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام کےلیے انتہائی سنگین نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
ان خطرات میں سے ایک تو یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلم دنیا کو شیعہ و سنی کے جھگڑے میں تقسیم کرکے رکھا جائے تاکہ مسلم دنیا کبھی بھی متحد نہ ہونے پائے؛ اور اس کام کےلیے امریکا و اسرائیل نے کئی ایک عرب ممالک کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں اور ان سے یہ معاہدہ کر رکھا ہے کہ امریکا ان ممالک کی سلامتی کا ضامن ہے۔
معروف سیاسی رہنما اور دانشور پروفیسر خورشید احمد نے اس عنوان سے لکھا ہے کہ نئے صہیونی منصوبے کے مطابق شرق اوسط میں سنی اور شیعہ تصادم کا فروغ، اسرائیلی اور سنی اسلام کا متحدہ محاذ، فلسطین کی آزاد ریاست کے تصور کو دفن کرکے بیت المقدس کو اسرائیل کا مستقل دارالحکومت بنانا اور فلسطینیوں کےلیے ایک ایسی بے معنی ضمنی ریاست کا قیام جو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں پر مشتمل ہو، جس کی کوئی مستقل فوج نہ ہو، جس کا دارالحکومت بیت المقدس سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں ابودیس ہو، اور جو ایسی کٹی پھٹی، لولی لنگڑی اور کمزور (نام نہاد) ریاست ہو جو معاشی طور پر کبھی خودکفیل نہ ہوسکے اور جو ہمیشہ مالی اعتبار سے امریکا اور چند دوسرے ممالک پر منحصر رہے۔
اس شیطانی عمل کےلیے امریکہ اور اسرائیل نے جو لائحہ عمل بنایا ہے اور، امریکی اخبارات کے مطابق، جس کے سلسلے میں کچھ عرب ممالک کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے، اسے 2018 کے شروع میں ارض فلسطین پر مسلط کرنے کا پروگرام ہے۔ (بحوالہ ترجمان القرآن، جنوری 2018)۔
یہاں ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ القدس، یہودیوں کا تین ہزار سال سے دارالحکومت رہا ہے۔ تو ان کی اطلاع کےلیے عرض ہے کہ القدس تین ہزار تو کیا دو ہزار سال قبل بھی بنی اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر یا پھر ان کے اقتدار میں نہیں رہا۔ القدس ہمیشہ سے ہی فلسطین کا دارالحکومت رہا ہے۔ یعنی القدس فلسطین کا ابدی دارالحکومت رہا ہے اور آج بھی ہے۔
’’القدس فلسطین کا ابدی دارالحکومت ہے،‘‘ اس عنوان سے خود فلسطین میں موجود عیسائی روحانی پیشوا عطاء اللہ حنا نے خوب انداز میں صہیونیوں کو منہ توڑ جواب دے دیا ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں ’’ہم فلسطینی مسیحی‘‘ کا استعمال کرکے ثابت کردیا ہے کہ فلسطین میں نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی اور ایسے یہودی بھی آباد تھے کہ جو صہیونیت کے پیروکار اور حامی نہ تھے جبکہ پہلی جنگ عظیم سے صہیونیوں کی تنظیم اور ایجنسی نے امریکا اور برطانیہ کی مدد سے دنیا بھر کے صہیونیوں کو فلسطین لاکر آباد کرنا شروع کیا اور 1948 میں غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔
فلسطین کے بشپ عطاء اللہ حنا نے صاف الفاظ میں امریکی صدر کے القدس سے متعلق اعلان اور فیصلے کی مذمت کرکے بتادیا ہے کہ القدس، فلسطین کا ابدی دارالحکومت ہے اور رہے گا۔ دوسری جانب افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم دنیا بالعموم اور عرب دنیا بالخصوص، امریکی صدر کے اعلان کے بعد کھل کر کوئی مؤقف اختیار کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی گواہی خود مسجد اقصیٰ کے خطیب اعظم شیخ عکرمہ صابری دے چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ قبلہ اول کو یہودیانے کی اسرائیلی سازشوں اور امریکی اقدامات کے ذمہ دار عرب ممالک ہیں۔ عرب دنیا نے قبلہ اول کے دفاع اور القدس کی آزادی کےلیے اپنی ذمہ داریاں کماحقہ ادا نہیں کیں، جس کے نتیجے میں فلسطینی قوم اور پوری مسلم امہ کو آج یہ دن دیکھنے پڑے ہیں۔
یقیناً یہ بات حقیقت ہے کہ جس قدر امریکی صدر کا بیان خطرناک ہے، اس قدر عرب اور مسلم دنیا سے ردعمل نہیں آیا ہے۔ عرب ممالک کا ردعمل انتہائی ڈھیلا ڈھالا اور بے معنی ہے۔ عرب ممالک کے حکمران مسلمانوں کے پہلے قبلہ اورتیسرے حرم کے حوالے سے بہت بڑی غلطیوں کے مرتکب ہورہے ہیں، مستقبل میں جن کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے اور ان عرب حکمرانوں کی بادشاہتیں اور تخت و تاج بھی باقی نہیں رہے گا۔
جیسا کہ زیرِ نظر تحریر کے آغاز میں بیان ہوا ہے، القدس سے کبھی یہودیوں کا کوئی تاریخی تعلق نہیں رہا۔ پوری تاریخ گواہ ہے کہ بیت المقدس کے ساتھ القدس شہر بھی ہمیشہ مسلمانوں کا گہوارہ رہا ہے۔ عرب دنیا کے حکمرانوں نے او آئی سی میں یہ کہا ہے کہ مشرقی القدس فلسطین کا حصہ بنالیا جائے۔ یہ بیان شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ القدس کی مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم براہ راست صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کے ناپاک عزائم کی تکمیل کا ایک طریقہ ہے۔
مسجد اقصیٰ کے خطیب اعظم شیخ عکرمہ صابری نے یہ بھی کہا ہے کہ قضیہ فلسطین تاقیامت مسلمانوں کا مرکز رہے گا اور یہ آج بھی صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ اگر کروڑوں برس بھی بیت جاتے ہیں تب بھی القدس کی اسلامی اور عرب حیثیت کوختم نہیں کیا جاسکتا۔ القدس فلسطینی قوم کا محاذ جنگ ہے اور ہم یہ محاذ نہیں چھوڑیں گے۔ القدس اور الاقصیٰ ہمارے تھے، اور ہمارے ہی رہیں گے۔
خلاصہ یہ ہے کہ القدس فلسطین کا ابدی دارالحکومت ہے اور پوری مسلم دنیا اور بالخصوص خطے میں موجود عرب دنیا کو چاہیے کہ اسرائیلی کاسہ لیسی چھوڑ کر یمن اور دوسرے ممالک پر جنگیں مسلط کرنے کے بجائے القدس کی حرمت اور تقدس کی خاطر اقدامات کریں۔ القدس، مکہ اور مدینہ کا حصہ ہے۔ القدس سے روگردانی حرمین شریفین سے روگردانی کے مترادف ہے۔ القدس کو لاحق خطرات مکہ اور مدینہ کو درپیش خطرات کے مترادف ہیں۔ ہمیں القدس کا دفاع مکہ اور مدینہ ہی کی طرح کرنا ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے منحوس اقدام نے مسلمان اور عیسائی برادری کو باہم متحد کردیا ہے۔ عالم اسلام اور عیسائی دنیا کے سامنے القدس کے تاریخی اسٹیٹس کا دفاع ایک بڑا چیلنج ہے اور ہم سب کو مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے۔ القدس کے تقدس اور تحفظ کےلیے فلسطینی قوم کے نوجوانوں اور خواتین نے قبلہ اول کا بھرپور دفاع کیا ہے اور کررہے ہیں۔ آج بھی فلسطین کی بہادر بیٹیاں، عرب اور مسلمانوں کی جانب سے قبلہ اول کا دفاع کررہی ہیں۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ القدس ہی فلسطین کا ابدی دارالحکومت ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اکائیاں متحد ہوجائیں اور ایک آواز ہوکر ’’القدس، فلسطین کا ابدی دارالحکومت‘‘ کی صدا بلند کردیں… یقیناً امریکی ایوانوں میں لرزہ طاری ہوجائے گا۔