counter easy hit

دو بچیوں کی بیوہ ماں اور ان کے دادا کو انصاف چاہئیے

“نقیب کو اٹھا کے کمرے سے باہر لے گئے اور کچھ دیر بعد اس کی اذیت بھری چیخوں کی آواز آنے لگی۔” حضرت علی نے بھرائی ہوئی آواز میں خاتون اینکر کو بتایا اور اینکر کی گال پر ایک آنسو لڑھک گیا چونکہ وہ ایک خاتون تھیں اور ایک ماں کا دل رکھتی تھیں۔ میں سوچ رہا تھا اس بیوہ ماں کا کیا حال ہو گا جو دور وزیرستان میں بیٹھی انصاف کی منتظر ہو گی۔

نسیم اللّٰہ المعروف نقیب اللّٰہ محسود وزیرستان  میں ملک محمد خان کے ہاں پیدا ہوا تھا۔ ایک محنت مزدوری کرنے والا  امن پسند، محبت پسند اور خوبرو پاکستانی تھا۔ نقیب کی شادی کم عمری میں ہی کروا دی گئی تھی ، رب نے اس کو 2 رحمتوں اور 1 نعمت سے نوازا تھا۔ کراچی میں ایک کپڑے کی دکان چلاتا تھا۔ 3 جنوری کو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ چائے پینے سہراب گھوٹ آیا تھا۔ جہاں سے پولیس والوں نے انہیں اغوا کر کے چوکی لے گئے تھے۔ وہاں اس پر اور اس کے دوستوں پر کئی روز تشدد کیا جاتا رہا ، بغیر کسی ثبوت کے، بغیر کسی گناہ کے، یہاں تک کے بغیر کسی الزام کے۔ وہ تشدد کی آپ بیتی اتنی اذیت سے بھرپور ہے کہ میرا قلم لکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ چند روز بعد نقیب کو نجی عقوبت خانے میں منتقل کر دیا گیا اور ایک روز راؤ انوار اور اس کے ظالم حواریوں نے نقیب سمیت 4 نوجوانوں کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا۔

راؤ انوار کون ہے؟ راؤ انوار پولیس میں بطور اے۔ ایس۔ آئی بھرتی ہوا ، کچھ کا تو کہنا ہے بطور کلرک بھرتی ہوا۔ کلرک یا اے۔ ایس۔ آئی کے عہدے سے ایس۔ ایس۔ پی کیسے بنا؟ وللّٰہ اعلم۔  1996ء میں جب جنرل  نصیر اللّٰہ بابر نے مہاجروں کے خلاف ظلم کا آغاز کیا ،تو راؤ انوار ان کا بایاں ہاتھ بنا، راؤ انوار نے چُن چُن کے مہاجروں کو قتل کیا۔ وہ پولیس والا نہیں بلکہ ایک کرائے کا قاتل بن گیا۔ جس کو صرف جگہ اور وقت درکار ہوتا تھا، کسی کی جان لینا اس کے لئے کوئی زیادہ مسئلے والی بات ہی نہ تھی۔  پھر جب ایم۔ کیو۔ ایم کی حکومت آئی اور ان پولیس افسران کو چُن چُن کر ٹھکانے لگائے جانے لگا جنہوں نے ان کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا تھا تو راؤ انوار نے چالاکی سے اپنا تبادلہ دوسرے صوبے میں کروا لیا۔جب آصف علی زرداری کی حکومت آئی تو راؤ انوار کو ترقی دے کر سندھ واپس لایا گیا اور ملیر ڈسٹرکٹ کا انچارج بنا دیا گیا۔ ملیر وہ جگہ ہے جہاں وڈیروں کی نجی جیلیں  بھی ہیں اور کمائی کے خاصے ذرائع بھی ہیں۔

نقیب اللّٰہ کی قربانی بھی  رائیگاں جاتی،  بھلا ہو نقیب کے دوستوں کاجنہوں نے اس کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر سچ بتایا اور پوری قوم کی آنکھیں کھل گئیں اور پوری قوم نے یک زبان ہو کر نقیب کے لئے انصاف کی اپیل کی۔

آئی۔ جی۔ سندھ اے۔ ڈی خواجہ جو آج کل سندھ حکومت کے چنگل سے آزاد ہیں، انہوں نے اچھی شہرت رکھنے والے افسروں  کی ایک  کمیٹی بھی بنا دی، راؤ انوار اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے لیکن انہیں اس کمیٹی میں اپنے خلاف عداوت نظر آنے لگی ۔ ظاہری سی بات ہے جس شخص کے سر پر زرداری صاحب کا ہاتھ ہو اور جو عید کی نمازیں بھی دبئی میں زرداری صاحب کے ہمراہ پڑھتا ہو، اس نے آئی۔ جی اور ڈی۔ آئی ۔ جی کو سیرئیس تھوڑی لینا ہے؟  اسی دوران سپریم کورٹ نے از خود نوٹس بھی لے لیا اور کمیٹی نے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔ رپورٹ کے مطابق، “مقابلہ بالکل جعلی تھا۔ مقابلے کی جگہ سے قتل ہونے والے چاروں لوگوں کی طرف سے  فائرنگ کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ ان چار لوگوں کو ایک نجی عقوبت خانے میں رکھا گیا تھا، جہاں نقیب کے علاوہ 51 دیگر ملزمان بھی تھے، پولیس وہاں سے کچھ دنوں کے وقفے سے چار پانچ لوگوں کو لے جاتی اور مقابلے میں مار دیتی۔” عدالت نے ریمارکس دئیے، “ہم جانتے ہیں کہ راؤ انوار کو چھپانے والے بڑے بڑے لوگ یہاں بھی موجود ہیں۔ آئی۔ جی۔ سندھ۔ کسی بھی قسم کے دباؤ سے آزاد ہو کر کام کریں،  کوئی بھی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو ہمیں بتائیں۔”

راؤ انوار نے اسلام آباد ائیر پورٹ سے  ملک سے باہر فرار ہونے کی کوشش کی لیکن ان کی کوشش ایف۔آئی۔ اے نے ناکام بنا دی۔ ایک خبر آئی لندن میں ای ٹیکسی ڈرائیور نے راؤ انور کو فلاں جگہ چھوڑا ہے۔یہ خبر بھی آئی کہ راؤ انوار ملک ریاض کے طیارے کے ذریعے ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ جس کی تردید راؤ انوار نے اور ملک ریاض نے کر دی۔ اس کی تردید راؤ انوار نے ان لفظوں میں کی کہ “جی، الحمد لِلّٰہ ملک میں ہی موجود ہوں۔”(پکڑ سکتے ہو تو پکڑ لو) رپوٹر کے مطابق گفتگو وٹس ایپ پر ہوئی۔ سابق ڈائریکٹر ایف۔ آئی۔ اے  کا کہنا ہے وٹس۔ ایپ کے ذریعے جگہ معلوم کی جاسکتی ہے(بشرط یہ کہ نیت ہو) راؤ انوار کہاں ہیں؟ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن نجی ٹی۔ وی۔ چینل پر ان کے نام کے ٹیکر ضرور چل رہے ہیں۔ ان کی گرفتاری کے لئے اسلام آباد سندھ پولیس کی ایک ٹیم پہنچی۔ اسلام آباد کے علاقے، ایف-10-4 کے ایک مکان پر چھاپہ مارا مگر وہ چھاپہ ناکام رہا۔ کوآرڈینیشن کا تو یہ عالم تھا کہ اسلام آباد پولیس اس چھاپے سے سِرے سے ہی لاعلم تھی۔ راؤ انوار کو ڈھونڈنے میں ملک کے تمام ادارے جُٹے ہوئے ہیں لیکن سب ہی ناکام ہیں۔ کیا یہ اداروں کی کارکردگی پر سوال نہیں اٹھاتا؟

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ سیاست چمکانے کراچی پہنچے اور احتجاجی جرگے میں بھی شرکت کی۔ تقریر کرتے ہوئے انہوں نے بڑے جوش کے ساتھ راؤ انوار کی گرفتاری اور اس کے 300 سے زائد ماورائے عدالت قتلوں کا آڈٹ کروانے کا مطالبہ کیا۔ جب میں نے ان کا یہ مطالبہ سنا تو مجھے اچھنبا ہوا۔ یہ عمران خان تو وہی ہیں، جب ایم۔ کیو۔ ایم۔ کے دباؤ پر راؤ انوار کو معطل کیا گیا تھا تو ان کی جماعت نے راؤ انوار کے حق میں مظاہرے کئے تھے اور عمران خان نے راؤانوار کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ پھر خان صاحب کو برا بھی لگتا ہے جب ان کو لوگ یو۔ ٹرن کا بادشاہ کہتا ہے۔

کچھ لوگ سارے معاملے کو لسانی رنگ دینے کی کوشش بھی کر رہے ہیں ، انہیں شاید علم نہیں۔ یہ جعلی مقابلہ شاہ لطیف ٹاؤن کی حدود میں ہوا، جس کا ایس۔ ایچ۔ او۔ امان اللّٰہ مروت اور اس کا بھائی ایس۔ ایچ ۔ او۔ احسان اللّٰہ مروت راؤ انوار کے داہنے ہاتھ سمجھے جاتے ہیں اور دونوں اس جعلی مقابلے میں شریک تھے، وہ بھی پشتون ہیں۔ یہ جنگ پشتون یا غیر پشتون کی نہیں ہے۔ یہ جنگ ظالم اور مظلوم کی جنگ ہے۔ جس میں ہر پیمانے سے نقیب اللّٰہ مظلوم اور راؤ انوار اینڈ کمپنی ظالم ہیں۔

سوال یہ بھی ہے، راؤ انوار نے ملیر میں اپنے جیسے کئی اور راؤ انوار پیدا کئے ہیں۔ راؤ انوار اگر اپنے کیفر کردار تک پہنچ بھی جائیں تو کیا ملک کے کرتا دھرتاؤں کو راؤانوار جیسے پولیس افسران کی ضرورت پیش نہیں آئی گی؟ کیا نقیب کی بیٹیوں نائلہ اور علینا کو انصاف ملے گا؟ کیا اس باپ کو انصاف ملے گا جس نے اپنے جوان بیٹے کے جنازے کو کندھا دیا  ہے؟ جو امن سے انصاف لینے کا حامی ہے؟ جو محبت و رواداری کا درس دے رہا ہے اس جرگے میں بیٹھ کر؟ جس کا چہرہ جھریوں سے بھر گیا ہے؟  کیا اس بیوہ کو انصاف ملے گا جو اپنے شوہر کی راہ تک رہی تھی؟ اس عاطف نقیب کو انصاف ملے گا جس کو نقیب فوج میں بھیجنا چاہتا تھا؟