ایک نجی ٹی۔ وی۔ چینل پر ڈرامہ باغی اپنی آخری اقساط میں گزر رہا ہے۔ یہ ڈرامہ قندیل بلوچ کی زندگی پر بنایا گیا ہے۔ وہی قندیل بلوچ جس کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا تھا۔
ہم قندیل بلوچ سے تو نفرت کرتے ہیں لیکن اس معاشرے کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے جو فوزیہ عظیم کو قندیل بلوچ بننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ وہ معاشرہ جہاں عورت کو فرسودہ رسم و رواج میں قید کر دیا جاتا ہے، جہاں جاہلانہ رسم و رواج کی بھینٹ حوّا کی بیٹی کو چڑھایا جاتا ہے۔ جہاں عورت بینظیر کی صورت میں ہو تو انتخابات میں اس کی کردارکشی کی مہمات شروع کی جاتی ہیں۔ جہاں آج بھی عورت کو ونی کی رسم کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ ہاں! منٹو کا لکھا لائسنس ہی ہمارے معاشرے کا سچ ہے۔ یہاں مرد کی نام نہاد غیرت پر آنچ آئے تو فوراً سے پہلے قتل جائز ہو جاتا ہے لیکن انسانیت کی غیرت کے قتل پر زبانیں گُنگ ہو جاتی ہیں۔ پاکستانی معاشرہ وہ معاشرہ ہے جہاں پچھلے دس سالوں میں سات ہزار سے زائد قتل رپورٹ ہوئے جن کی وجہ نام نہاد غیرت تھی۔
جون 2002ء میں مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کے گاؤں میروالا میں اپنے بھائی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے پر بے ضمیر جرگہ مختاراں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا حکم دیتا ہے اور 6 درندے مختاراں کو درندگی کا نشانہ بناتے ہیں۔ مختاراں کو دھمکیاں دینے والے جمشید دستی کو عوام ایم۔این۔اے بنا کر قومی اسمبلی پہنچا دیتی ہیں۔
اگست 2008ء جب بلوچستان کے عمرانی قبیلے کے سفاک لوگ پانچ عورتوں کو اغواء کرتے ہیں، ان پر تشدد کر کے زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں اور گولیاں مار کر زندہ درگور کر دیتے ہیں۔ ان کا قصور محض اتنا ہوتا ہے کہ وہ قبیلے کے سردار کی مرضی سے شادی کرنے پر رضامند نہیں ہوتیں اور خود اپنی پسند کا ہمسفر چاہتی تھیں لیکن ہماری غیرتیں یہ برداشت نہیں کر پاتیں۔ ایک سینیٹر اسرار اللّٰۃ زہری اس سانحے پر کچھ یوں گویا ہوتے ہیں، “یہ ہماری صدیوں پرانی روایات ہیں اور ہم ان کا دفاع کرنا جاری رکھیں گے۔”
مئی ، 2014ء کی ایک دوپہر کو لاہور ہائیکورٹ کے باہر حاملہ فرزانہ پروین اقبال کو اس کے اپنے گھر والے ہی پتھر مار مار کر سنگسار کر دیتے ہیں۔ وہ وکیل جو اپنے مؤکلوں کو انصاف کی یقین دہانی کرواتے ہیں، اس دوپہر کسی کی یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ آگے بڑھ کر اس ہوتے ظلم کو روک سکے۔
فروری 2016ء میں جب پنجاب حکومت نے تحفظ عورت بل پاس کیا تو تیس سے زائد مذہبی گروہوں نے اس کی مخالفت کی اور چند کاغذی دانشوروں کو اس میں یہود و نصٰریٰ کی سازش نظر آنے لگی۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک اور شوشہ چھوڑااور حکومت کو تجویز دی کہ مرد کو عورت پر ہلکا تشدد کرنے کی اجازت ہونی چاہئے، اتنا تشدد جس سے اس کی ہڈی نہ ٹوٹٹے۔ اس چیز سے بادی النظر کے رسول ﷺ نے کبھی کسی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور سختی سے منع کیا ہے۔ شاید چوٹ کونسل والے بےحس تھے جن کے نزدیک چوٹ صرف جسم پر لگتی ہے، روح زخموں کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔
اپریل 2016ء میں کراچی کے علاقے مومناآباد میں حیات اپنی بہن سمیرا کو ایک شک کی بناء پر چھریوں کے وار سے زخمی کر دیتا ہے۔ وہ گھر کے باہر تھڑے پر لیٹی سسکتی رہتی ہے اور اس کے سرہانے حیات موبائل میں گیم کھیلنے میں مصروف رہتا ہے۔ قریب ہی چند لوگ اس منظر کو اپنے کیمروں میں عکس بند تو کر رہے ہوتے ہیں لیکن کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ آگے بڑھ کر اس سسکتی سترہ سالہ سمیرا کو ہسپتال ہی لے جائے۔
جون 2016ء میں زینت کو اس کی ماں پروین بی بی زندہ جلا دیتی ہے کیونکہ وہ اس حق کا استعمال کرتی ہے جو اسے اس کا مذہب بھی دیتا ہے اور ملک کا قانون بھی۔ حسان خان سے نکاح کے بعد اس کے والدین اس سے ناراض ہوجاتے ہیں لیکن آخر صلح ہو ہی جاتی ہے اور اسے گھر بلاتے ہیں۔ حسان اپنی بیوی زینت سے جاتے ہوئے یہ الفاظ کہتا ہے، “اپنا خیال رکھنا، مجھے تمہارے گھر والوں کو ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے۔” حسان کے تمام اندیشے درست ثابت ہوتے ہیں اور اسے ناقابلِ شناخت صورت میں اپنی بیوی کی لاش ملتی ہے۔
جولائی 2016ء میں ملتان میں بھائی کے جرم پر پنچائیت اس کی نابالغ بہن کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا حکم دے دیتی ہے اور ادارے کانوں میں روئی ٹھوس کر بیٹھے رہتے ہیں۔
مارچ 2017ءسیالکوٹ میں والد کے منتخب کردہ لڑکے سے شادی سے انکار پر صباء کو اس کا بےرحم باپ زبح کر دیتا ہے اور یہ قیامت ڈھانے کے بعد خود ہارٹ اٹیک سے مر جاتا ہے۔
حال ہی میں، کوہاٹ شادی سے انکار پر اسماء رانی کو رشتے سے انکار کرنے پر مجاہد گولیاں مار کر زندگی کا حق چھین لیتا ہے۔ اسماء کی ایک تصویر مختلف چینلوں پر گردش کر رہی تھی، جس میں وہ کیمرے کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ اسماء میڈیکل کے تیسرے سال کی طالبہ تھی اور دو سالوں میں ڈاکٹر بننے والی تھی لیکن اس کے خواب اس معاشرے کی پیداوار نے چھین لئے۔ اس واقعے پر وزیرِاعلیٰ پختونخواء یہ کہتے نظر آئے، “قتل تو ہوتے رہتے ہیں، اب میں ہر جگہ نہیں جا سکتا۔”
میرے ہاتھ لکھتے لکھتے تھک جائیں گے لیکن یہ داستانیں ختم ہونے میں نہیں آئیں گی۔ کیونکہ یہ شاخصانہ ہر آنگن کا ہے، ہر شہر کا ہے، ہر بستی ہر گاؤں کا ہے۔ان واقعات میں اکثر کے قاتل آج بھی آزاد ہیں، ان بیٹیوں کی قبریں آج بھی انصاف کی منادی ہیں۔
بقول شاعر،
جہاں انصاف ملے، اس آنکھ نے ایسا کوئی دفتر نہیں دیکھا
تختے کی طرف جائے قتل کا مجرم اس شہر کے لوگوں نے ایسا کوئی منظر نہیں دیکھا
قاتل کے طرف دار کا کہنا ہے، اس نے مقتول کے شانوں پر کبھی سر نہیں دیکھا
یہ معاشرہ عدم برداشت کا گہوارا بنتا جا رہا ہے۔ جہاں انسان کو اپنی جھوٹی غیرت اپنے رشتوں سے زیادہ عزیز ہے۔ نجانے اس دیس میں اور کتنی اسماء، فرزانہ جیسی بیٹیاں معاشرے کی حوس زدہ رسم و رواج اور روایات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ یہ تو وہی واقعات ہیں جو منظرِ عام پر آجاتے ہیں۔ نجانے کتنی بیٹیاں گمنامی میں اس درندگی کا شکار ہوئیں۔ پاکستان وہ دیس جہاں سوچا تھا کہ یہاں کی عورت کا مستقبل مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کی مانند روشن ہوگا، کسے خبر تھی کہ یہ معاشرہ اس کا مستقبل اس سورج کی مانند تابناک بنا دے گا کیونکہ اب تو یہ دستور بن چکا ہے جو سوال کرے اس کو مار دو، جو حق مانگے اس کو جلا دو، جو آواز اٹھائے اس سے آنکھوں کی روشنی چھین لو۔ خیر کوئی گھبرانے والی بات نہیں ہمارے ضمیروں کو بہلانے کے لئے یہ نعرہ ہی کافی ہے۔ ہم زندہ قوم ہیں!