شعیب شیخ اور بول ٹی وی چینل پاکستانی صحافت اور وطن عزیز کے ماتھے پر ایک بدنما داغ کی مانند ہیں۔ شعیب شیخ نے اپنی انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی ایگزیکٹ کی آڑ میں ڈارک ویب پر پورنو گرافی کی ویب سائٹس اور جعلی ڈگریوں کا دھندہ چلا کر سالہا سال نہ صرف اربوں روپے اس کالے دھندے سے کمائے بلکہ اپنی فحش ویب سائٹس اور جعلی ڈگریوں کے گاہکوں کو بلیک میل بھی کیا۔ ملکی تاریخ کے بدترین ایگزیکٹ سکینڈل کے افشا ہونے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شعیب شیخ اور اس کے کاروباری اداروں پر مکمل پابندی عائد کر دی جاتی اور ایک شفاف و آزادانہ عدالتی کے بعد شعیب شیخ کو سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا جاتا لیکن اس کے برعکس اس شخص کو نہ صرف ٹیلیویژن چینل کا نیٹ ورک چلانے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی بلکہ اپنے ٹیلی ویژن چینل کی آڑ میں اس شخص نے وطن عزیز میں نفرتوں کی تجارت جاری رکھی۔ جس بے رحمانہ انداز میں بول ٹی وی سے غداری اور توہین کی اسناد بانٹی گئیں ان کی نظیر وطن عزیز میں تلاش کرنا ناممکن ہے۔
30 ہزار سے زائد جعلی ڈگریاں فروخت کرنے اور سینکڑوں فحش ویب سائٹس چلا کر پورنو گرافی جیسے دھندے سے پیسہ کمانے والا یہ شخص اور اس کا ٹی وی چینل ایک ایجنڈے کے تحت جب پس پشت قوتوں کی ایما پر سیاستدانوں کی اخلاقیات پر سوالت اٹھاتا ہے اور کرپشن پر بھاشن دیتا ہے تو غالباً منافقت کی تمام حدیں اس وقت عبور ہو جاتی ہیں۔ اس چینل کی سکرین سے جب الوطنی کے درس اور غداری و توہین کی اسناد بانٹی جاتی ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ آخر بے ضمیری، ایمان فروشی، بے ایمانی اور صحافت کی اس قدر بلند منزلوں پر فائز یہ ادارہ اور اس کا مالک آخر کیونکر قانون کی گرفت سے آزاد ہے اور تمام تر کالے دھندے اور کالے دھن کے ثبوتوں کے موجود ہونے کے باوجود کس کی منشا اور رضامندی سے صحافت کی آڑ میں اپنے کالے دھن کو سفید کرنے میں لگا ہوا ہے۔
بدقسمتی سے خود شعبہ صحافت کی چند کالی بھیڑیں شعیب شیخ سے وظییفے حاصل کر کے اس شخص اور اس کے کاروباری اداروں کے کالے کرتوتوں کو عام افراد سے چھپاتے پھرتے ہیں۔ دراصل ایگزیکٹ سکینڈل کیس ملکی تاریخ میں بدعنوانی کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ اس واقعے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمپنی ایگزیکٹ کے میڈیا کی صنعت میں آنے اور “بول” کے نام سے ٹی وی چینل لانچ کرنے کی کوشش کی وجہ سے اس کیس کو بین الاقوامی دنیا میں خصوصی اہمیت دی گئی۔ ایگزیکٹ نامی کمپنی پاکستان کی صف اول کی آئی ٹی کمپنیوں میں شمار ہوتی تھی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت سے حاصل ہونے والا تقریبا 60 فیصد سے زیادہ زر مبادلہ اسی کمپنی کی بدولت تھا۔
یہ کمپنی فحش ویب سائٹس کو ویب سرور اور کسٹمر سپورٹ دینے کے علاوہ جعلی ڈگریاں بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کرتی تھی۔ کمپنی کا چہرہ شعیب شیخ نامی شخص تھا جو انتہائی کامیابی کے ساتھ اس کمپنی کے کالے دھن اور دو نمبر دھندے کو سفید کرتا تھا۔ پولیس ایف آئی اے سیاستدان غرض ہر طاقتور شخص کو یہ روپیہ یا پلاٹ دیکر خاموش کروا دیتا۔ ایسا نہیں تھا کہ ملک کی انٹیلیجینس ایجنسیوں کو ایگزیکٹ اور شعیب شیخ کے کالے دھندوں کا پتہ نہیں تھا، عرصہ دراز سے اس کمپنی کی مبینہ سرگرمیاں خاموشی سے مانیٹر کی جا رہی تھیں۔ ایگزیکٹ نے پوری دنیا بشمول پاکستان میں انتہائی اہم اور بڑی بڑی شخصیات کو جعلی ڈگریاں بیچی تھیں اور پیسہ کمانے کے علاوہ شعیب شیخ بہت سے خفیہ ہاتھوں کو بین الاقوامی دنیا میں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے بھی فائدہ مند ثابت ہو رہا تھاـ کیونکہ اس کی جعلی ڈگریوں کے گاہک اکثر و بیشتر دیگر ممالک میں اہم اور حساس عہدوں پر تعینات تھے اور انہیں بلیک میل کر کے رقم بٹورنے کے علاوہ بہت سی اہم اور خفیہ معلومات بھی شعیب شیخ کے زریعے کچھ ہاتھوں تک پہنچ جاتی تھیں، اس وجہ سے ایگزیکٹ یا شعیب شیخ پر کبھی بھی ہاتھ نہ ڈالا گیا اور اسے قانون کی ناک کے نیچے یہ سارا کھیل کھیلنے دیا گیا۔
لیکن پھر اس کہانی میں ایک اہم موڑ آیا، شعیب شیخ اور اس کی پشت پر موجود کچھ سپانسرز نے “بول” کے نام سے ایک نیوز چینل لانچ کرنے کی کوشش کی۔ ملکی صحافت کے تمام بڑے ناموں کو اتنا پیسہ آفر کیا گیا کہ اس کی چک و چوند میں وہ یہ بھول گئے کہ ایگزیکٹ کا دھندہ کیا ہے۔ زور و شور سے پاکستان کا سب سے بڑا چینل لانچ کرنے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ پاکستان کی صحافت کے تقریباً تمام نامور صحافیوں اور اینکرز نے اس ٹی وی چینل کو جوائن کر لیا۔ ایگزیکٹ کے انٹرنیٹ پر عریاں ویب سایٹس اور فحاشی کے دھندوں کی معلومات تو باخبر افراد کے کانوں تک اکثر پہنچتی رہتی تھیں لیکن جعلی آن لائن کالجز اور یونیورسٹیوں کے کالے کرتوت کے بارے میں کسی کو آگاہی نہ تھی۔ خیر اس چینل کی لانچ سے کچھ عرصہ قبل ہی ڈیکلن والش نامی صحافی نے جب یہ سکینڈل ایک بین الاقوامی اخبار میں بریک کیا تو ان تمام حکومتی شخصیات کے دعووں کو مزید تقویت مل گئی جو اس چینل کے ہیچھے کسی تیسری طاقت کے ہاتھ کی موجودگی کی جانب اشارے کرتے تھے۔
ان دعووں کے مطابق شعیب شیخ صرف ایک کٹھ پتلی تھا جس کی ڈور ان خفیہ ہاتھوں میں تھی جو حکومت کو اور چند میڈیا ہاوسز کو “سبق” سکھانا چاہ رہے تھے۔ جو طاقت کا توازن تبدیل کرنے کیلئے ایک نیا میڈیا گروپ کٹھ پتلی کے ذریعے لا کر ملک میں میڈیا پر اجارہ داری قائم کرنا چاہ رہے تھے۔ لیکن یہ چال الٹی ثابت ہوئی اور ایگزیکٹ کو حکومت نے بڑے میڈیا گروپوں کے ساتھ مل کر قابو کر لیا۔ بین الاقوامی پریس کے زریعے اس خبر کو چلا کر ایک عالمی ہائپ کو جنم دیا گیا اور اس کی آڑ میں حکومت نے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے پس پشت قوتوں کے اس ہرکارے شعیب شیخ پر ہاتھ ڈال دیا اور بول ٹی وی اور ایگزیکٹ کو سیل کر دیا گیا۔
لیکن حالات میں اچانک ہی نیا موڑ آیا، رفتہ رفتہ پھر اس کیس کو بھی دیگر سکینڈلز کی طرح منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا۔ حکومت نے اس وقت کے سیاسی بحران سے نمٹنے اور پس پشت قوتوں کے ایک حصے سے صلح کے بعد اس کیس کو دبانے ہی میں عافیت جانی۔ شعیب شیخ کی پشت پر موجود قوتوں نے اس چینل کو پھر سے لانچ کرنے کی کوششیں کی اور ایک مشہور ٹی وی چینل کے مالک اور سونے کے کاروبار سے منسلک شخصیت نے اس کے شیئرز بھی خریدے لیکن اس ٹی وی کو لانچ نہ کیا جا سکا۔
ادھر شعیب شیخ ایف آئی اے کی تحویل میں فائیو سٹار ہوٹلوں کے ناشتوں سے لطف اندوز ہوتا رہا ۔ ایک ایسے وقت میں جب یہ کیس فیصلے کے بالکل قریب تھا ایف آئی کے پراسیکیوٹر زاہد جمیل نے پراسرار طور پر اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔ سندھ ہائی کورٹ سے شعیب شیخ کی یکایک ضمانت منظور ہوئی اور حیرت انگیز طور پر بول ٹی وی لانچ کر دیا گیا۔ بول ٹی وی کے پلیٹ فارم سے جب زرد صحافت کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے تو پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن نے اعلیٰ علیہ میں پھر سے اس کیس کی شنوائی کی درخواست دائر کر دی۔ چونکہ شعیب شیخ جیسے پیادے اکثر طاقت کی بساط پر استعمال کیے جاتے ہیں اس لیئے دوبارہ سے اس کیس کے کھلنے یا اس کی قید یا رہائی کوئی خاص معنی نہیں رکھتی۔ لیکن اس کو استعمال کرنے والے ہاتھ آج بھی صحافیوں اور قانون کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ ہمارے کسی بھی بڑے صحافتی نام یا ٹی وی چینل کو توفیق نہیں ہوئی کہ شعیب شیخ کی پشت پر موجود قوتوں کے بارے میں تحقیقات کی ہمت کرتے۔ بول کو جوائن کرنے والے بڑے بڑے اینکرز اور صحافی تو خود شعیب شیخ سے تنخواہیں بٹورنے کے بعد چلتے بنے لیکن بول چینل کی پشت پر موجود قوتوں کو بے نقاب کرنے کی ہمت آج تک نہ جٹا پائے۔ اس قدر شرمناک اور بڑے سکینڈل کے مجرم شعیب شیخ کو آج تک کیونکر ایک وی آئی پی ٹریٹمنٹ دیا جا رہا ہے اس کو سمجھنے کیلئے عقلمندوں کیلئے اشارہ ہی کافی ہے۔
یہ بساط سجانے والے ہاتھ کب تک ایسے مہرے اتارتے رہیں گے یہ سوال بھی باقی ہے۔ متعدد بار شعیب شیخ کو مہرہ بنانے والے ہاتھوں کو کونسی عالمی طاقتوں نے اس بساط کو سجانے سے منع کیا تھا، اس سوال کا جواب بھی باقی ہے۔ ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر زاہد جمیل کے گھر پر کس نے دستی بم سے حملہ کروایا تھا اور انہیں کس نے کیس سے علحدہ ہونے پر مجبور کیا تھا، اس کا جواب بھی حل طلب ہے۔ ان سوالات کے جوابات سیدھا سیدھا اس کہانی کے اصل لکھنے والے مقامی اور بین الاقوامی ہاتھوں کو بےنقاب کر سکتے ہیں۔
دیگر کئی سکینڈلز کی طرح شاید اس بدترین طاقت کے حصول اور پیسے کی اندھا دھند لالچ اور ملک کی بدنامی جیسے لا تعداد جرائم کا سچ بھی آج سے کچھ دہائیوں بعد منظر عام پر آ ہی جائے گا کیونکہ بہرحال سچائی خوشبو کی مانند ہوتی ہے اور ایک نہ ایک دن چار سو پھیل جاتی ہے۔ فی الوقت بال اعلیٰ عدلیہ کی کورٹ میں ہے اور اگر اعلیٰ عدلیہ چاہے تو اس ایگزیکٹ سکینڈل اور بول ٹی وی کی پشت پر موجود قوتوں کو قانون کے کٹہرے میں لاتے ہوئے وطن عزیز کو دنیا بھر میں رسوا کرنے والوں کا احتساب کر سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے معزز عدلیہ کو چند صحافی نما کالی بھیڑوں اور خفیہ قوتوں کے دبائو سے ماورا ہو کر اس کیس کا میرٹ اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کرنا ہو گا۔ اگر محض اس بنیاد پر شعیب شیخ کو کاروبار کرنے کی اجازت دی جائے کہ اس کے ٹی وی چینل سے وابستہ سینکڑوں صحافیوں کا روزگار ختم ہو جائے گا تو پھر اس دلیل کے تناظر میں وطن عزیز میں کسی بھی سمگلر، کسی نوسرباز، کسہ قحبہ خانے چلانے والے، کسی لینڈ مافیا کے سرغنہ یا کسی پورنو گرافی کے دھندوں میں ملوث شخص کو نہ تو سزا دی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کے کالے دھندوں کو بند کیا جا سکتا ہے۔ آخر ان دھندوں سے بھی تو ہزاروں افراد کا روزگار جڑا ہوتا ہے۔ امید غالب ہے کہ معزز عدلیہ وطن عزیز کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور اس کو دنیا بھر میں شرمسار کروانے والوں سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نبٹے گی۔