آپ نے وہ لطیفہ سنا ہو گا جس میں ایک فلم ساز نوجوان طوائف کو فلموں میں کام کی دعوت دیتا ہے تو طوائف کی ماں کہتی ہے‘ بیٹا جب اﷲ ہمیں کوٹھے پر عزت کی روٹی دے رہا ہے تو پھر ہمیں فلموں کے کنجر خانے میں جانے کی کیا ضرورت ہے؟مجھے یہ لطیفہ سب سے پہلے استاد مکرم عطاء الحق قاسمی نے سنایا تھا‘ یہ 1999ء میں تازہ تازہ سفارت سے رہا ہوئے تھے‘ یہ وزارت خارجہ سے لفٹ کے ذریعے نیچے جا رہے تھے‘ اس وقت کے وزیر خارجہ عبدالستار بھی لفٹ میں موجود تھے‘ عبدالستار نے جان بوجھ کر قاسمی صاحب کو پہچاننے سے انکار کر دیا‘ یہ اس رویئے پر دل گرفتہ ہوئے‘ میرے ساتھ ملاقات ہوئی‘ یہ لطیفہ سنایا اور اس کے بعد فرمایا ’’یار مجھے عزت کی روٹی مل رہی تھی میں خواہ مخواہ سفارت کے ……میں گھس گیا‘‘ وہ اس کے بعد خود بھی دیر تک ہنستے رہے اور میں بھی۔
عطاء الحق قاسمی لیجنڈ ہیں‘ یہ سر سے پاؤں تک حس مزاح سے لبریز ہیں‘ یہ بولتے ہیں تو سننے والوں کے کان ہنس پڑتے ہیں اور یہ لکھتے ہیں تو پڑھنے والوں کی آنکھیں قہقہہ لگانے پر مجبور ہو جاتی ہیں‘ دنیا میں اپنے پس منظر کو شکست دینا سب سے بڑی بہادری ہوتی ہے اور قاسمی صاحب بے انتہا بہادر انسان بھی ہیں‘ ان کے والد عالم دین تھے‘ امام مسجد بھی تھے۔
ایک امام مسجد کے گھر سے نکل کر ادب میں آنا اور کرنل محمد خان‘ شفیق الرحمن اور مشتاق احمد یوسفی کے پائے کا مزاح لکھنا‘ شاعری کرنا‘ کالم نگار بننا اور پھر ایک نیم خواندہ معاشرے میں خود کو دانشور اسٹیبلش کرنا بہت بڑی بہادری کا کام ہے‘ لوگ تین تین نسلوں تک عقائد کا دائرہ نہیں توڑ سکتے‘ ہمیں اپنی سماجی کم تری دھونے کے لیے بھی چار نسلیں چاہیے ہوتی ہیں جب کہ عطاء الحق قاسمی یہ سارے کام ایک زندگی میں کر گئے‘ یہ سارے فرسودہ دائرے توڑ کر آگے نکل گئے۔
ادب اور صحافت دونوں مختلف شعبے ہیں‘ ادیب کبھی صحافی نہیں ہو سکتا اور صحافی کبھی ادیب نہیں بن سکتا لیکن قاسمی صاحب ایک ایسے ادیب ہیں جنہوں نے پوری زندگی صحافت کی‘ اردو کالم اگر آج ایک باعزت شعبہ ہے تو اس میں قاسمی صاحب کا کنٹری بیوشن 80 فیصد ہے‘ آج اگر صحافت کی رگوں میں مزاح ہے تو یہ بھی قاسمی صاحب کے دم قدم سے ہے‘ میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے سمجھتا ہوں آپ اگر عطاء الحق قاسمی کو اردو ادب سے نکال دیں تو اردو ادب ادھورا ہو جائے گا۔
آپ اگر انھیں کالم نگاری سے خارج کر دیں تو اردو کالم بھی کالم نہیں رہے گا اور آپ اگر انھیں مزاح سے بھی باہر کر دیں تو اردو مزاح بھی مزاح نہیں رہے گا‘ قاسمی صاحب یار باش بھی ہیں اور صاف ستھرے دشمن بھی‘ یہ دوستوں کے سچے دوست اور دشمنوں کے کھرے دشمن ہیں‘ یہ دوستی کے بھیس میں دشمنی اور دشمنی کے بھیس میں درندگی نہیں کرتے‘ یہ آپ کے ساتھ ہیں تو پھر ہیں اور اگر نہیں ہیں تو پھر نہیں ہیں۔
یہ نہیں ہو سکتا یہ آپ کو دیکھیں تو دانت نکالیں اور آپ چلے جائیں تو یہ آپ کے خلاف غیبت کی پٹاری کھول لیں لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود عطاء الحق قاسمی انسان ہیں اور دوسرے انسانوں کی طرح ان میں بھی سیکڑوں عیب ہیں لیکن ان میں دو عیب نہیں ہیں۔
یہ ملک کو نقصان نہیں پہنچا سکتے اور یہ کرپٹ نہیں ہیں تاہم ان میں دو خوفناک خامیاں بھی ہیں اور میں پچھلے بیس برسوں سے انھیں ان خامیوں کا تاوان ادا کرتے دیکھ رہا ہوں‘ ان کی پہلی خامی میاں نواز شریف ہیں‘ یہ بدقسمتی سے میاں نواز شریف کے جیالے بن گئے ہیں اور یہ میرا مطالعہ‘ مشاہدہ اور تجربہ ہے جب کوئی صحافی کسی ایک شخص‘ نظریئے یا پارٹی کا حصہ بن جاتا ہے تو پھر وہ صحافی نہیں رہتا‘ وہ سیاستدان ہو جاتا ہے۔صحافت غیر جانبداری اور آزاد رائے کا شعبہ ہے‘ ہم جب ایک بار کسی کے ہو جاتے ہیں تو پھر ہمارے ہاتھ میں رائے کی آزادی رہتی ہے اور نہ ہی غیر جانبداری اور قاسمی صاحب نے میاں نواز شریف کی محبت میں یہ دونوں گوہر گنوا دیے‘ دوسری خامی یہ آج بھی سمجھتے ہیں سرکاری اداروں کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے چنانچہ یہ 1997ء میں ’’ماڈل سفیر‘‘ اور 2015ء میں پی ٹی وی کی نشاۃ ثانیہ کے چکر میں عزت کی روٹی سے بھی محروم ہو گئے اور یہ عزت سادات بھی گنوا بیٹھے۔
میں عطاء الحق قاسمی کے چیئرمین پی ٹی وی بننے کے خلاف تھا‘ میں آج بھی سمجھتا ہوں عطاء الحق قاسمی کا قد کاٹھ پی ٹی وی سے سو گنا زیادہ ہے‘ یہ چیئرمین بن کر اپنے مقام سے نیچے گر گئے تھے‘ یہ سفیر بن کربھی چھوٹے ہوگئے تھے‘ میری یہ رائے اپنی جگہ لیکن دوسری طرف ایک دوسری حقیقت بھی ہے‘ اگر عطاء الحق قاسمی اس عہدے کے قابل نہیں تھے‘ اگر یہ میرٹ پر نہیں تھے تو پھر ملک میں کون سا شخص اس عہدے کے قابل ہے؟ پھر کون میرٹ پر آتا ہے؟ دوسرا قاسمی صاحب جس تنخواہ پر کام کرتے رہے کیا وہ تنخواہ ان کے قد کاٹھ اور پروفائل کے مطابق تھی؟یہ صرف کالم لکھ کر اتنا معاوضہ لے رہے تھے جب کہ چیئرمین شپ چوبیس گھنٹے کی خواری تھی‘ یہ سمجھتے تھے یہ پی ٹی وی کو اس کی عظمت رفتہ لوٹا دیں گے‘ میں ان سے عرض کرتا تھا سر قوم نے بڑی محنت سے ادارے تباہ کیے ہیں‘ اب پاکستان کا کوئی سرکاری ادارہ دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتا لیکن یہ نہیں مانتے تھے‘ یہ کہتے تھے مجھے آخری کوشش کر کے دیکھ لینے دو‘ قاسمی صاحب نے کوشش بھی کر لی اور یہ اب اس کا نتیجہ بھی دیکھ رہے ہیں۔میری خواہش ہے سپریم کورٹ عطاء الحق قاسمی کو خوف ناک سزا دے‘ یہ انھیں عبرت ناک مثال بنا دے تاکہ کل کوئی دوسرا قاسمی یہ غلطی نہ دہرائے‘ قاسمی صاحب جیسے لوگ سرکاری اداروں میں قدم رکھنے سے پہلے دس دس بار وضو کریں اور سو سو بار استغفار کریں‘ قاسمی صاحب کے خلاف سوموٹو چل رہا ہے‘ یہ سوموٹو بے شک چلے لیکن میری چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے آپ قاسمی صاحب کے ساتھ ساتھ چند دوسری فائلیں بھی کھول لیں۔
آپ پاکستان کے تمام اداروں کے چیئرمینوں کی تنخواہیں‘ مراعات اور آفٹر ریٹائرمنٹ سہولیات کی تفصیل منگوا لیں‘ آپ پی ٹی وی کے زوال کی وجوہات تلاش کرنے کے لیے بھی ایک کمیشن بنادیں ‘ یہ کمیشن ان لوگوں کا تعین کرے جنہوں نے اس ادارے کو اس حال تک پہنچا یا‘ آپ سیکریٹری انفارمیشن کی مراعات‘ سہولیات اور ریٹائرمنٹ کے بعد دس کروڑ روپے کے دوپلاٹوں کی تفصیل بھی منگوا لیں‘ آپ وزارت اطلاعات سے یہ بھی پوچھیں حکومت بجلی کے ہر کنکشن ہولڈر سے پی ٹی وی کے نام پر ہر مہینہ 35 روپے کیوں وصول کرتی ہے۔
کیا یہ جگا ٹیکس نہیں اور حکومت عوام پر ٹیکس لگا کر 25 سال سے ایک کمرشل ادارہ کیوں چلا رہی ہے اور اگر پی ٹی وی اپنا بوجھ نہیں اٹھا پا رہا تو حکومت اسے بند کیوں نہیں کر دیتی‘ یہ ادارے کے بے کار ملازموں کو گھر میں بٹھا کر ہر ماہ اربوں روپے کیوںدیتی ہے؟آپ پی ٹی وی کے ملازمین کا ڈیٹا بھی منگوائیں‘ آپ وزارت اطلاعات سے پوچھیں اگر پی ٹی وی ڈرامے اور موسیقی کے پروگرام مارکیٹ سے خریدتا ہے تو پھر تمام اسٹیشنوں پر ڈرامے اور موسیقی کا اسٹاف‘ آلات اور افسر کیوں ہیں؟ حکومت ان تمام لوگوں کو گھر داماد بنا کر کیوں کھلا رہی ہے؟ اور آپ پی ٹی وی کے روزانہ اخراجات (بجلی کے کنکشن کے علاوہ) اور آمدنی کا چارٹ بھی منگوا کر دیکھئے۔آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی اور آپ اگر یہ سمجھتے ہیں سرکاری اداروں کی سربراہی صرف سرکاری ملازمین کے پاس ہونی چاہیے تو پھر آپ پرائیویٹ سیکٹر سے ’’سی ای اوز‘‘ لینے پر پابندی لگا دیں‘ آپ ایک بار ہی فیصلہ کر لیں حکومت نجی شعبے سے کوئی شخص ہائر نہیں کرے گی‘ پی آئی اے کو پی آئی اے‘ ریلوے کو ریلوے‘ اسٹیل مل کو اسٹیل مل اور پی ٹی وی کو پی ٹی وی کے لوگ چلائیں گے‘ آپ تمام سرکاری اداروں میں نجی شعبے سے بھرتیوں پر پابندی لگا دیں تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیٹل ہو جائے۔
ہم ایک عجیب مغالطے کا شکار ہیں‘ ہمارے سرکاری ادارے نہیں چل رہے‘ ہم ان اداروں کو چلانے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر سے لوگ لیتے ہیں‘ مارکیٹ کے لوگ مہنگے ہوتے ہیں‘ آپ خود سوچئے پرائیویٹ بینک کا صدر تیس چالیس لاکھ روپے تنخواہ لیتا ہے‘ وہ یہ تنخواہ چھوڑ کر دس لاکھ روپے میں نیشنل بینک کی ملازمت کیوں کرے گا‘ آپ کو اسے مارکیٹ سے زیادہ تنخواہ دینا پڑے گی۔آپ ادارہ چلانے کے لیے یہ کر گزرتے ہیں لیکن جب وہ آ جاتا ہے تو پھر وہ کام کرنے کے بجائے مقدمے بھگتتا رہتا ہے‘ اسے اسٹینڈنگ کمیٹیاں طلب کر لیتی ہیں‘ وہ وہاں سے نکلتا ہے تو وہ عدالتوں میں پیشیاں بھگتتا ہے اور وہ جب تھک ہار کر دفتر واپس جاتا ہے تو یونین اس کا راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہے‘ وہ اس سے نبٹتا ہے تو ایف آئی اے‘ نیب اور ایف بی آر تلوار لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں چنانچہ وہ روتے پیٹتے ہوئے اپنا کنٹریکٹ پورا کرتا ہے اور ذلیل و خوار ہو کر پرائیویٹ سیکٹر میں واپس چلا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی غلطی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی‘ وہ باقی زندگی حساب دیتا رہ جاتا ہے‘ یہ کھیل بھی اب ختم ہو جانا چاہیے۔آپ ایک ہی بار پرائیویٹ ہائرنگ پر پابندی لگا دیں تاکہ بانس اور بانسریاں دونوں چپ ہو جائیں اور دوسرا عطاء الحق قاسمی کو بھی اب معافی مانگ لینی چاہیے‘ یہ عدالت اور پی ٹی وی سے معافی مانگیں اور باقی زندگی ’’مجھے اس ……خانے میں پڑنے کی کیا ضرورت تھی‘‘ کا ورد کر کے گزار دیں اور پرائیویٹ سیکٹر کے وہ تمام لوگ بھی جو یہ سمجھتے ہیں وہ سرکاری مُردوں میں جان ڈال سکتے ہیں وہ بھی قاسمی صاحب سے عبرت پکڑیں‘ توبہ کریں اور عزت کی روٹی کھا کر شکر کا پانی پئیں اور مزے سے زندگی گزاریں‘ ایڈونچر کرنے کی کوشش نہ کریں ورنہ یہ بھی قاسمی صاحب کی طرح اپنا ہاتھ سوموٹو میں پھنسا بیٹھیں گے‘ یہ بھی پوری زندگی حساب دیتے رہیں گے۔