یہ آج سے تین ہزار سال قبل کا واقعہ ہے۔ زمین کے کسی خطے پر ایک ملک آباد تھا۔ بلاگستان نامی اس ملک میں ایک اخبار شائع ہوا کرتا تھا۔ اخبار کا نام “رنگ میں بھنگ” تھا۔ اس اخبار کو چلانے والے چار نامور اور سینیئر صحافی تھے۔ پہلے کا نام مرزا تنقید بھیانک آبادی تھا۔ دوسرے صاحب شیخ تائید کنندہ ایسی تیسوی تھے۔ تیسرے صاحب کا نام اچھل کود بیگ پھدکوی اور چوتھے صاحب مشاورت خان پھینکوی صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے۔
روزنامہ “رنگ میں بھنگ” بلاگستان کا سب سے زیادہ شائع ہونے والا اور معتبر اخبار تھا۔ بلاگستان کے ہاکر ہر روز گھروں میں “رنگ میں بھنگ” ڈالتے تھے اور عوام دانت پیستی رہ جاتی تھی۔ بلاگستان میں اور بھی کئی اخبارات شائع ہوتے تھے مگر “رنگ میں بھنگ” کی مقبولیت کے آگے کسی کا چراغ نہیں جلتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جو کاغذ “رنگ میں بھنگ” کی اشاعت میں استعمال ہوتا تھا وہ تیل بہت اچھی طرح چوس لیا کرتا تھا اس لیے پکوڑے، سموسے اور جلیبی وغیرہ بھی اسی اخبار پر رکھ کر بیچے جاتے تھے تاکہ ان کا تیل زیادہ سے زیادہ خشک ہو سکے۔
مرزا تنقید بھیانک آبادی روزنامہ “رنگ میں بھنگ” کے ایڈیٹر تھے اور ان کا کام ہر وقت بھیانک قسم کی تنقید کرنا تھا۔ ہر نیا لکھنے والا ان کے نام سے لرزتا رہتا تھا۔ اچھی سے اچھی تحریر پر تنقید کی ایسی گولہ باری کرتے تھے کہ نیا لکھنے والا کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ تلا کرتا ہوا لکھنے سے تائب ہو جاتا تھا۔ یہ مرزا تنقید بھیانک آبادی کی ذمہ داری بھی تھی کیونکہ اگر نئے لکھنے والے لکھنا شروع کر دیتے تو روزنامہ “رنگ میں بھنگ” کی مقبولیت داؤ پر لگ سکتی تھی اور اس طرح بہت سوں کی روزی روٹی خطرے میں پڑ جاتی۔ چناچہ گربہ کشتن روز اول کے مصداق جوں ہی کسی نئے لکھنے والے کا علم ہوتا تو مرزا تنقید بھیانک آبادی اپنے تنقیدی چھری کانٹے لے کر پل پڑتے اور لکھنے والے کے وہ لتے لیتے کہ الامان و الحفیظ۔
شیخ تائید کنندہ ایسی تیسوی اس کام میں بھیانک آبادی صاحب کے معاون خصوصی تھے۔ جوں ہی مرزا تنقیدبھیانک آبادی کا رخ کسی نئے لکھنے والے کی طرف ہوتا، شیخ صاحب اس بے چارے لکھنے والے کی ایسی کی تیسی پھیرنے کے لیے بھیانک قسم کی تائید کے ساتھ آن موجود ہوتے۔ مرزا صاحب کی تنقید پر آمنا و صدقنا کے نعرے لگاتے شیخ صاحب مرزا صاحب کی باتوں کی تائید کرتے چلے جاتے اور نئے لکھنے والوں کی پیشانی عرق ندامت میں بھیگتی چلی جاتی۔ مرزا تنقید بھیانک آبادی کی تنقید کو وہ نظر انداز کر بھی دیتے تو شیخ تائید کنندہ ایسی تیسوی کی تائید ان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی کہ شاید مرزا تنقید بھیانک آبادی کی تنقید جائز ہی ہے۔ چناچہ وہ اپنی تحاریر پر خود ہی شرمندہ ہوتے پھرتے۔
روزنامہ “رنگ میں بھنگ” کے تیسرے صاحب اچھل کود پھدکوی تھے جو بلاگستان میں شائع ہونے والے دیگر تمام اخبارات پر پھدکتے پھرتے اور نئے لکھنے والوں کی فہرست مرتب کرتے۔ جوں ہی انہیں شبہ گذرتا کہ کوئی نیا لکھنے والا کوشش کر رہا ہے کہ میدان میں جمے پرانے بلکہ “کھانگڑ” قسم کے لکھاریوں کے مقابلے میں اپنی شناخت بنائے، پھدکوی صاحب فوری طور پر اس کے نام کو خط کشیدہ کر لیتے۔ خط کشیدہ کرنے کے بعد وہ کشیدگی پھیلانے کی غرض سے ایک چبھتا ہوا تبصرہ فرما کر فوراً روزنامہ “رنگ میں بھنگ” جا پہنچتے اور مرزا تنقید بھیانک آبادی کو اطلاع دیتے۔ مرزا صاحب کی باچھیں کانوں تک کھل جاتیں اور وہ فوراً اس لکھاری کی تحریر پر آ دھمکتے اور پھر وہی ہوتا جو کچھ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ حالات کچھ کشیدہ ہو جاتے اور روزنامہ “رنگ میں بھنگ” کی مقبولیت کو چار چاند لگ جاتے۔
چوتھے صاحب مشاورت خان پھینکوی تھے جو جا بجا مشورے دیتے پھرتے۔ ان کا اصل کام تو روزنامہ “رنگ میں بھنگ” کی ادارت اور سرکولیشن میں مشاورت مہیا کرنا تھا مگر یہ اتنے عمدہ قسم کے مشیر تھے کہ ہر اس جگہ مشورہ دینے پہنچ جاتے جہاں مشورے کی قطعاً ضرورت نہ ہوتی۔ یہ اکثر نئے لکھاریوں کو بھی مشورہ دے جاتے جس سے مرزا تنقید بھیانک آبادی کے حلق سے بھیانک قسم کی آوازیں نکلنا شروع ہو جاتیں۔ وہ ہمیشہ مشاورت خان پھینکوی کو لتاڑتے رہتے کہ اگر ان کے مشوروں کی بدولت کسی نئے لکھنے والے نے سکہ جما لیا تو روزنامہ “رنگ میں بھنگ” کی مقبولیت میں کمی واقع ہو جائے گی۔
ایک دن ایسا ہوا کہ ایک نیا اخبار بلاگستان میں شائع ہونا شروع ہو گیا۔ اس اخبار کا نام روزنامہ “بنیا” تھا۔ ظاہر ہے اخبار ہی بنیا تھا تو کام بھی مفت میں لینے کا عادی تھا۔ اس اخبار نے مفت میں نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی شروع کر دی اور ان کی تحاریر کو چھاپنا شروع کر دیا۔ اب مرزا تنقید بھیانک آبادی اور ان کے عملے کو فکر پڑی کہ اگر یہ مفتے والا اخبار چل نکلا تو عوام نے روزنامہ “رنگ میں بھنگ” کو پکوڑوں اور سموسوں کے لیے بھی لیناچھوڑ دینا ہے۔ چناچہ ان چاروں حضرات کا پورا لاؤ لشکر بمع دیگر “پس پشت قوتیں” روزنامہ “بنیا” کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا۔ ایسی بھیانک تنقید شروع ہوئی۔ ایسی تائیدیں آئیں۔ ایسی اچھل کود ہوئی اور ایسے ایسے مشورے ارزاں کیے گئے کہ نئے لکھنے والوں نے روزنامہ “بنیا” میں لکھنے پر نظر ثانی شروع کر دی۔
مسئلہ یہ آن پڑا کہ نئے لکھنے والے جائیں تو کہاں جائیں۔ روزنامہ “رنگ میں بھنگ” نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا بلکہ ان کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ لکھنے والا محنت سے کچھ لکھتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کی تحریر چھپے۔ بھلے اس کو اس کا معاوضہ نہ ملے مگر لوگ اس کو پڑھیں۔
تین ہزار سال قبل کا ادب اسی لیے ہماری دسترس میں نہیں ہے کہ اس وقت تنقید کی گولہ باری سے نئے اور اچھا لکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کر دی گئی۔ تین ہزار سال بعد بھی اگر ہم اسی روش پر چلیں گے تو تین ہزار سال بعد آنے والے ہمارے بارے میں بھی یہی لکھیں گے۔
“سراہا جانا ہمیشہ سے انسان کی خواہش رہی ہے۔ جب بھی کسی کی کسی بھی کاوش کو سراہا جاتا ہے تو اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ بچہ پیدا ہوتے ہی چھلانگیں لگانا شروع نہیں کر دیتا بلکہ اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں وقت لگتا ہے۔ پھر وہ قدم قدم چلنا شروع کرتا ہے۔ ایسے میں اس کا ہاتھ تھام کر اور اس کو سہارا دے کر اس کے اندر کا خوف دور کیا جاتا ہے۔
ذرا تصور کیجیے۔ آپ کا بچہ پہلی مرتبہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوا مگر کچھ ہی دیر میں لڑکھڑا کر گر پڑا۔ تو آپ کیا کریں گے؟ اس پر تنقید کریں گے؟ اس کو مشورے دیں گے؟ یا پھر اس کا ہاتھ تھام کر اسے کھڑا ہونے میں مدد دیں گے۔ اس کی دل جوئی کریں گے اور اسے شاباش دیں گے؟
آپ اپنی انسانیت کو مدنظر رکھ کر خود فیصلہ کر لیجیئے۔”