لاہور: پاکستان کر کٹ ٹیم کے دورئہ انگلینڈ اورآئرلینڈ کے لیے کھلاڑیوں کے فٹنس ٹیسٹ کا آغاز آج سے لاہور میں ہوگا۔
ٹوئنٹی 20 کا ہنگامہ ختم ہونے کے بعد اب ٹیسٹ کرکٹ کی باری آ گئی ہے، پاکستانی کرکٹ ٹیم کو رواں ماہ کے آخر میں برطانیہ کے دورے پر جانا ہے، جہاں کینٹ کاونٹی سے چار روزہ میچ کے بعد گرین کیپس11سے15مئی تک آئرلینڈ سے واحد ٹیسٹ کھیلیں گے، ڈبلن کے قریب مالاہائیڈ میں آئرش ٹیم اپنا اولین پانچ روزہ میچ کھیلنے کیلیے بے تاب ہے،اس کے بعد انگلینڈ سے 2 ٹیسٹ اور پھر اسکاٹ لینڈ کیخلاف2 ٹوئنٹی20 میچز ہونا ہیں۔
اہم دورے سے قبل پی سی بی نے تمام کھلاڑیوں کی فٹنس جانچنے کا فیصلہ کیا تھا جس کو عملی جامہ پیر سے پہنایا جارہا ہے۔ نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور میں شیڈول کھلاڑیوں کے مختلف گروپس میں ٹیسٹ لیے جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق فٹنس ٹیسٹ کے لیے سینٹرل کنٹریکٹ حاصل کرنے والے پلیئرزکوبلایا گیا ہے تاہم فٹنس مسائل سے دوچار یاسر شاہ، سہیل خان اور عماد وسیم فٹنس ٹیسٹ نہیں دیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یاسر شاہ گزشتہ ہفتے کولہے کی انجری کا شکار ہوگئے ہیں، ان کی انجری کا جائزہ لیا جائے گا جس کے بعد ہی ان کی ٹیم میں شمولیت کا فیصلہ ہوگا۔
گزشتہ برس سینٹرل کنٹریکٹ کا حصہ بننے والے 35 کرکٹرز کے ساتھ پی ایس ایل میں عمدہ کارکردگی کی بدولت ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹوئنٹی 20 سیریزمیں انٹرنیشنل کیریئرکا آغاز کرنے والے حسین طلعت، آصف علی اورشاہین شاہ آفریدی کے ساتھ کئی برس سے نظرانداز فوادعالم کوبھی ممکنہ کھلاڑیوں میں شامل کرنے پراتفاق کیا گیا ہے، گزشتہ معاہدے کی میعاد یکم جولائی 2017سے30 جون 2018 تک ہے، فٹنس ٹیسٹ کے بعد نئے سینٹرل کنٹریکٹ کے لیے فہرست کی تیاری بھی شروع ہو جائیگی۔
11سے23اپریل تک ٹیسٹ اسکواڈ کا تربیتی کیمپ لگے گا،کیمپ کے بعد حتمی ٹیسٹ اسکواڈ منتخب ہوگا۔ مزید معلوم ہوا ہے کہ چیف سلیکٹر انضمام الحق نے 17 کھلاڑیوں کے ناموں کی تجویز دی ہے جبکہ وہاب ریاض کا ٹیسٹ اسکواڈ میں جگہ بنانا مشکل ہے۔راحت علی کو ٹیم میں شامل کیے جانے کا امکان ہے جبکہ یاسر شاہ کے ان فٹ ہونے کے باعث شاداب خان کے ساتھ کاشف بھٹی کوبھی اسکواڈ کا حصہ بنائے جانے کا امکان ہے۔
انگلینڈ سے ٹیسٹ میچز کے بعد اسکاٹ لینڈ سے ٹی ٹوئنٹی میچزکیلیے مزید 3 سے4پلیئرز کو بھیجا جائے گا۔یاد رہے کہ پاکستان کوگذشتہ برس اکتوبر میں سری لنکا کیخلاف آخری سیریز میں 2-0 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس طرز میں کارکردگی شایان شان نہ ہونے کے سبب سلیکٹرز کو بہترین اسکواڈ تشکیل دینے کا چیلنج درپیش ہوگا۔