کہیں ذات کے نام پر دلتوں کو تو کہیں دھرم کے نام پر مسلمانوں کو انتہا پسند ہندو کاٹ رہا ہے، اور دوسری طرف اسرائیل اپنے غاصبانہ قبضے کو مستحکم کرنے کی خاطر فلسطینیوں پر ظلم وستم کرکے اپنے جذبات کو تسکین پہنچانے کی سرتوڑ کوشش میں مصروف عمل نظر آتا ہے۔ بھارت انشاء مشتاق جیسی نہتی کشمیری لڑکیوں پر پیلٹ گن فائر کرکے انہیں بینائی سے محروم کررہا ہے تو اسرائیل احد تمیمی جیسی فلسطینی لڑکیوں پر مختلف قسم کے 12 الزامات عائد کرکے انہیں پابند سلاسل کرکے سمجھتا ہے کہ آزادی کی جو رمق اس قوم کے لہو میں شامل ہے وہ اسے ختم کررہا ہے۔
اسرائیل اور بھارت کی بڑھتی ہوئی قربتیں ظاہر کرتی ہیں کہ بھارت اور اسرائیل مسلم نسل کشی میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
جواہر لعل نہرو جب 1960ء میں دولت مشترکہ کے وزرائے اعظم کی لندن میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے بعد غزہ میں جنگ بندی سرحد پر تعینات اقوام متحدہ کی فوج میں شامل بھارتی فوجیوں سے ملنے گئے تھے تو واپسی پر ان کے طیارے کو اسرائیلی جیٹ طیاروں کا تعاقب سہنا پڑا تھا جو اسرائیل میں انہیں اتارنے کی کوششوں میں مصروف تھے لیکن یہاں نہرو کے چارٹرڈ طیارے کے پائلٹ کی مہارت نے اسرائیلی جیٹ طیاروں کی کوشش کو ناکام بنادیا تھا جس پر نہرو نے واپس بھارتی لوک سبھا میں اس کا انکشاف کیا اور اس کارروائی کو بلا اشتعال اقدام قرار دیا تھا اور اس واقعہ پر ابھی تک اسرائیل کی طرف سے معذرت تک نہیں کی گئی۔
اُسی اسرائیل کے وزیراعظم کا اب بھارتی زمین پر نریندر مودی کے دورِحکومت میں شاندار استقبال کیا جاتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی صیہونی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرزل کی قبر پر جاکر حاضری دیتا ہے اوراپنی عقیدت کا برملا اظہار بھی کرتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم ایک پھول ’’گل داوؤدی‘‘ (Crysanthumun) کا نام مودی کے نام پر رکھ دیتا ہے اور بدلے میں بھارتی وزیراعظم مزید حق دوستی ادا کرتے ہوئے دہلی کے تین مورتی چوک کا نام بدل کر اسرائیل کے زیرقبضہ دوسرے بڑے شہر حیفا کے نام پر رکھ دیتا ہے۔
اس تین مورتی چوک کے پیچھے ایک مکمل تاریخ ہے، جس کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف اتنا بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہاں تین فوجیوں کی مورتیاں ہیں جو پہلی جنگ عظیم میں مشرق وُسطیٰ کے محاذ پر لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے تھے، اور ان فوجیوں نے ستمبر 1918ء میں فلسطین کے شہر حیفا کو سلطنت عثمانیہ سے چھینا تھا۔ بہرحال یہ ایک خونچکاں تاریخ ہے جس کاحوصلہ مجھ میں لکھنے کا ہے اور نہ آپ میں پڑھنے کا۔ اسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور گاہے گاہے امریکہ اس کا اظہار ڈنکے کی چوٹ پر کرتا رہتا ہے۔ اقوام متحدہ میں اگر پوری دنیا کے ممالک ایک طرف ہوجائیں تو امریکہ اسرائیل کی حمایت میں ان سب سے لڑ جائے گا، لیکن اسرائیلی حمایت نہیں چھوڑے گا۔ جنہوں نے یہودی پروٹوکولز پڑھے ہیں وہ میری اس بات کی گہرائی سے بھی واقف ہونگے۔
امریکہ میں یہودیوں کا جس قدر اثر ورسوخ ہے، اس سے کوئی بعید نہیں کہ اسرائیل کی حفاظت کےلیے امریکہ پوری دنیا کو آگ لگا دے۔ غاصب اسرائیل کے گرد ممالک میں امن وامان کی مخدوش حالت پر ذرا گہری نظر رکھیں تو واضح ہوتاہے کہ کس طرح سے اسرائیل مخالف ممالک کو خانہ جنگی میں مبتلا کرکے اسرائیل کا دفاع مضبوط کیا گیا ہے۔
اسرائیل کے خلاف دنیا بھر کے مسلمان دامے درمے قدمے سخنے جدوجہد میں نظر آتے ہیں، لیکن دنیا بھر میں کہیں کہیں گاہے گاہے دوسرے مذاہب کے ماننے والے انصاف پسند لوگ بھی اسرائیل کے خلاف زبانی وعملی اقدامات میں مصروف نظر آجاتے ہیں۔
پچھلے سال 2017ء کے پہلے دن جہان فانی سے رخصت ہونے والے بشپ ہلارین کابوچی کا شمار ایسے سرکردہ افراد میں ہوتا تھا جنہوں نے اپنی پوری زندگی فلسطین کی آزادی کےلیے وقف کیے رکھی۔ شام کے شہر حلب میں بشیر کابوچی کے گھر 1922ء میں پیدا ہوئے اور بعد ازاں ان کا خاندان بیت المقدس منتقل ہوگیا جہاں 1965ء میں انہیں چرچ کا پادری مقررکیا گیا۔ کیتھولک فرقے سے تعلق رکھنے والے ہلارین کابوچی کو 1974ء میں فلسطینی مزاحمت کی حمایت کی پاداش میں اسرائیلیوں نے گرفتار کرکے صیہونی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جہاں سے انہیں 12 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ ہلارین کابوچی پر جو الزامات لگائے گئے ان میں سرفہرست فلسطینی تحریک آزادی کی حمایت کرنے اور مجاہدین کو اسلحہ فراہم کرنا تھے۔ جیل میں ڈالے جانے کے بعد ویٹی کن پوپ (پاپائے روم) نے مداخلت کی، لیکن اسرائیل کابوچی کو فلسطین میں رکھنے پر آمادہ نہ ہوا بلکہ انہیں اٹلی جلاوطن کردیا گیا۔
کچھ رپورٹس کے مطابق ہلارین کابوچی اپنی ذاتی کار میں فلسطینی مزاحمت کاروں اور مجاہدوں کو کمک پہنچاتے رہے۔ صیہونی انٹیلی جنس سرتوڑ کوشش کے بعد سراغ لگانے میں کامیاب رہی کہ ہلارین کابوچی مزاحمتی تحریک کا ایک سرگرم رکن ہے جو مجاہدین کو کُمک پہنچانے کا کلیدی کردارادا کرتا رہا ہے۔ اس کے بعد ان کی گرفتاری عمل میں آئی اور انہیں جلا وطن کردیا گیا۔ جہاں انہوں نے باقی زندگی بھر فلسطینی کاز کی حمایت جاری رکھی۔ جلاوطنی میں بھی ہلارین کابوچی نے زبان و قلم سے فلسطینی تحریک آزادی کی نہ صرف حمایت جاری رکھی بلکہ اس میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔
جلاوطنی کے بعد انہوں نے دنیا کے دیگر ممالک میں فلسطینیوں کی آواز پہنچانے کا کام شروع کیا۔ باہر کی دنیا میں مظلوم فلسطینی قوم کےلیے ایک متحرک سماجی شخصیت کا کردار ادا کیا۔ 2009ء میں لبنان سے فلسطین کے محصور علاقے غزہ کےلیے بھیجی گئی امدادی قافلے میں شرکت کی۔ بعدازاں ’’فریڈم فلوٹیلا‘‘ میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس میں شامل ترکی کے ایک بحری جہاز پر کھلے سمندر میں اسرائیلی بحریہ نے حملہ کیا تھا اور 10 ترک امدادی کارکن شہید جبکہ 50 زخمی ہوئے تھے۔ گرفتار ہونے والے 600 افراد میں ہلارین کابوچی بھی شامل تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی سفارت خانہ کو بیت المقدس منتقل کرنے کے اعلان کے خلاف فلسطینی عیسائی بھی میدان میں ہیں۔ 25 دسمبر 2017ء کو رومن آرتھوڈوکس فرقے کے بشپ اور سرکردہ عیسائی رہنماء نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اعلان القدس نہ صرف مسلمانوں پر بلکہ عیسائی دنیا کے خلاف بھی گہری سازش ہے۔ غرب اردن کے شہر بیت لحم میں مذہبی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عطااللہ حنا کا کہنا تھا کہ مسلمان اور عیسائی مل کر امریکی ناپاک عزائم کو ناکام کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطین میں مسلمان اور عیسائی دونوں اسرائیل کے مظالم سے متاثر ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے پڑوس میں ہندوستان ہے جو تمام تر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر پاکستانی سفارت خانے کو ہراساں کر رہا ہے۔ تقسیم برصغیر کے وقت کئی علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کیے ہوئے بھارت نے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ جہاں جارحانہ رویہ اختیار کیے رکھا ہے وہیں ان ملکوں کے اندرونی معاملات میں بھی دخل اندازی کی شرمناک تاریخ رکھتا ہے۔
بھارت کے اندر ماسوائے اونچی ذات کے ہندوؤں کے دوسروں کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔ دلت ذات کو سرعام مارا پیٹا جاتا ہے اور ان کی خواتین تک کو بعض اوقات سرعام برہنہ کردیا جاتا ہے۔ دوسرے مذاہب کے ساتھ تو وہاں پر حالات اس سے بھی مخدوش ہیں۔ کشمیرمیں اپنے غاصبانہ قبضے کو طول دینے کےلیے کشمیریوں پر ظلم وستم کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔ اسرائیلیوں کے تجربات سے استفادہ کرکے کشمیریوں پر نت نئے طریقے آزماتا ہے۔
برہان وانی شہیدؒ کی شہادت کے بعد سے تو بھارت باؤلے کتے کی طرح کشمیر میں بھاگا پھرتا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ہو جب بھارتی فوجیوں نے کشمیریوں پر ظلم وستم نہ کیا ہو۔ چند ایک ہندو مصنفین و تجزیہ نگار ہیں جنہوں نے بھارتی ظلم کو ظلم ہی کہا ہے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو جدوجہد ہی لکھاہے، نہیں تو بھارتی تجزیہ نگار کشمیریوں کے اس حق کو بھی ماننے سے انکاری ہیں جو اقوام متحدہ کے فورم پر بھارت خود مان چکا ہے۔ حق خودارادیت کو دبانے کی غرض سے بھارت پاکستان پر الزامات لگاتا ہے، پاکستانیوں پر الزام لگا کر انہیں اقوام عالم کے سامنے دہشت گرد کے طور پر ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔
مسلمان دنیا کی پرامن ترین قوم ہے جو دنیا بھر میں ظلم و ستم کا نشانہ بن رہی ہے۔ اپنی اکثریت کے باوجود دنیا بھر میں خاک وخون میں نہلائے جانے کے بعد بھی مسلمان پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرکے منصفانہ اقدامات کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ یہودی اور ہندو اپنی بقاء کی خاطر دنیا بھر کا امن و سکون بارود پر رکھے ہوئے ہیں جو کبھی بھی پھٹ سکتا ہے۔ امریکہ اسرائیل کی حمایت میں ساری عالمی اقدارو قوانین کو بالائے طاق رکھ کر اسرائیل کی حفاظت میں شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بن چکا ہے۔ انصاف پسند اگرچہ دنیا میں کم ہیں لیکن بہرحال موجود ہیں، اور اپنی موجودگی کو وقتاً فوقتاً ثابت کرتے رہتے ہیں۔
ہمیں ایسے افراد کا حوصلہ بڑھانا چاہیے جو مظلومین کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی زندگیاں مزید خطرات میں لے آتے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ کس قدر اور کب تک اسرائیلی مظالم پرخاموشی اختیار کیے رکھیں گے، اور سال چھ ماہ بعدعالمی فورم پر اسرائیلی ظلم وستم پر مذمتی قرارداد لاکر اپنا ضمیر مطمئن کرنے کی سعی لاحاصل کریں گے!