الیکشن ایکٹ 2017ء کے بل میں الیکشن کمیشن کو یہ اجازت دے دی گٸ ہے کہ وہ ضمنی انتخابات میں آزماٸشی بنیادوں پر بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ووٹ ڈالنے کے انتظامات کرے اور اس بات کا جاٸزہ لے کہ اس عمل میں کیا کیا تکنیکی مشکلات پیش آسکتی ہیں، کس طرح ایک ووٹر کی معلومات کو خفیہ رکھتے ہوئے اس پورے عمل کو کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت سے محفوظ بنایا جاسکتا ہے اور ساتھ ساتھ اس پورے عمل پر اٹھنے والے مالی اخراجات کا بھی تعین کرے تاکہ بجٹ میں اس کے لیے رقم مختص کی جائے اور پھر مستقبل میں عام انتخابات میں بھی یہ حق تارکین وطن کو دیا جاسکے۔
لیکن بد قسمتی سے اس سارے آزماٸشی عمل کو باٸی پاس کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ ذمہ داری خود لے لی ہے کیوں کہ سیاست دانوں کی سست روی کی وجہ سے یہ بل پاس ہوتے ہوتے بہت دیر ہوگئی ہے۔ اس دیر کی وجہ صرف حکومت نہیں خود تحریک انصاف بھٕی ہے جس نے گذشتہ عرصے میں سب زیادہ اس مقصد کے لیے آواز بھی اٹھاٸی۔ تحریک انصاف کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی زیادہ تعداد ان کی ووٹر ہے لیکن اس کے باوجود 2014ء میں جب انتخابی اصلاحاتی کمیٹی بنی توخان صاحب نے بجائے آٸندہ انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے، 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف دھرنا جاری رکھا۔ بات صرف احتجاج یا دھرنے تک رہتی تو اور بات تھی لیکن خان صاحب بہت آگے نکل گئے اسمبلیوں سے استعفے بھی دیے اور سول نا فرمانی تک کرڈالی جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کے ارکان اسمبلیوں سے غیرحاضر رہے اور مذکورہ کمیٹی کا کام سست روی کا شکار ہوگیا۔
126 دن کے دھرنے کے بعد بننے والے جوڈیشل کمیشن نے دھاندلی کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی اور انتخابی اصلاحات بھی تاخیر کا شکار ہوگئیں۔ اسی دوران مسلم لیگ ن نے اسی کمیٹی میں وہ قانون بھی ختم کردیا جو کسی نا اہل شخص کے پارٹی صدر بننے کے راستے میں رکاوٹ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ختم نبوت کے قانون میں جو غلطی ہوٸی وہ بھی اسی کمیٹی میں ہوٸی۔ اپوزیشن جس کا کام ہی غلطی کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے، سوٸی رہی۔ اسمبلی اور سینٹ میں جب یہ بل پیش ہوا تو ختم نبوت قانون میں غلطی کی نشاندہی کچھ مذہبی جماعتوں نے کی لیکن اپوزیشن کی باقی جماعتیں اس تصحیح کی بھی مخالفت کرتی رہیں اور بل کی منظوری کے حوالے سے گو مگو کا شکار رہیں۔ حکومت کے چند اراکین نے تصحیح کی حمایت کرنا چاہی تو اپوزیشن کا رویہ دیکھ کر اور نواز شریف کو پارٹی صدر بنانے کی جلدی میں اس معاملےکو اہمیت نہ دی اور جب بل پاس ہوگیا تو سب معصوم بن گئے اور اپوزیشن نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا اس لیے جہاں اس غلطی کی ذمہ دار حکومت ہے وہیں اپوزیشن بھی ہے۔ اس پورے عرصے میں تحریک انصاف نے پایا کچھ بھی نہیں صرف کھویا ہی کھویا۔ کیا یہ ہوتا ہے لیڈر؟ یہ ہوتا ہے وژن؟
لوگ کہتے ہیں کہ حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے اداروں کو مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ میری نظر میں اس دور کی اپوزیشن بھی نالاٸق ترین ہے جو اپنا ایک بھی مطالبہ نہ منوا سکی جو انتخابات میں ان کے حق میں جاتا۔ اسی نالاٸقی کی وجہ سے اب اداروں کو کھل کر میدان میں آنا پڑ رہا ہے۔ جو استعفیٰ دھرنے سے نہیں مل سکا وہ سپریم کورٹ سے پانامہ کے بجائے اقامہ پر نا اہلی کی صورت میں مل گیا ہے۔ اب انتخابی اصلاحات کا بل بھی ایک ایسے وقت میں پاس ہوا کہ جب اسمبلیاں اپنی مدت کے اختتام پر ہیں۔ اس لیے یہ خیال کیا جارہا تھا کہ 2018ء کے الیکشن میں بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہیں مل سکے گا۔ اگر یہ تاثر درست ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کا زیادہ جھکائو تحریک انصاف کی طرف ہے تو اس سے بڑی نالاٸقی تحریک انصاف کی اور کیا ہوگی کہ وہ پانچ سال میں 126 دن کے دھرنے اور لاک ڈائون کے باوجود بھی یہ مطالبہ حکومت سے نہ منواسکی اور استعفیٰ کے پیچھے لگی رہی اور وہ بھی نہ لے سکی۔ اس کے لیے بھی سپریم کورٹ کو پانامہ کیس سننا پڑا اور بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کے لیے بھی سپریم کورٹ کو آگے آنا پڑا۔ اب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اپنی ذاتی توجہ دے کر پوری کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح 2018ء کے الیکشن میں بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلایا جا سکے جبکہ یہ مطالبہ عمران خان دھرنے کے دوران با آسانی منوا سکتے تھے۔
عالمی ادارہ برائے جمہوریت اور انتخابی معاونت کے مطابق دنیا بھر کے 216 ممالک کی فہرست میں 55 ممالک ایسے ہیں جن کے بیرون ملک مقیم شہریوں کو حق رائے دہی کی اجازت نہیں ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
دو ایسے ممالک ہیں جہاں اس حوالے سے کوٸی فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔
ایک ایسا ملک ہے جہاں یہ عمل ٹرانزیشن پیریڈ میں ہے۔
ایسے 7 ممالک ہیں جہاں براہِ راست انتخابات کا کوٸی تصور موجود ہی نہیں۔
ایسے 3 ممالک ہیں جن کے بارے میں کوٸی واضح معلومات موجود نہیں۔
ایسے 78 ممالک ہیں جن کے تارکین وطن کو ذاتی حیثیت میں سفارت خانے پہنچ کر حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
ایسے 18 ممالک ہیں جن کے تارکین وطن کو سفارت خانے کے علاوہ پوسٹل ذراٸع سے بھٕی ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے۔
ایسے 5 ممالک ہیں جن کے تارکین وطن سفارت خانے میں یا اپنے ملک میں کسی بھی شخص کو اپنی جگہ ووٹ ڈالنے کے لیۓ بھی نامزد کرسکتے ہیں۔
ایسے 23 ممالک ہیں جن کے تارکین وطن صرف پوسٹل ذراٸع سے ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
ایسے 5 ممالک ہیں جن کے تارکین وطن پوسٹل یا کسی شخص کو اپنی جگہ نامزد کرکے بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
ایسے 8 ممالک ہیں جن کے تارکین وطن صرف کسی شخص کو اپنی جگہ نامزد کرکے ہی ووٹ کا حق استعمال کرسکتے ہیں۔
ایسے 2 ممالک ہیں جن کے تارکین وطن کو سفارت خانے، پوسٹل ذراٸع اور کسی شخص کو نامزد کرکے ان تینوں ذراٸع سے ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے۔
جبکہ ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں سفارت خانے اور پوسٹل ذراٸع کے ساتھ ساتھ فیکس کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی بھی اجازت ہے۔
ایک ملک ایسا ہے جن کے تارکین وطن کو ایڈوانس ووٹنگ کی اجازت ہے۔
اور صرف 9 ایسے ممالک ہیں جن کے تارکین وطن کو دیگر ذراٸع کے ساتھ انٹرنیٹ کے ذریعے بھی ووٹ ڈالنے کی سہولت میسر ہے۔
جنوبی ایشیاء کی اگر بات کی جائے تو بنگلہ دیش کے تارکین کو پوسٹل ذراٸع سے، انڈیا کے تارکین کو پوسٹل اور کسی شخص کو اپنی جگہ نامزد کرکے، مالدیپ کے تارکین کو سفارت خانوں میں ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے۔ اس کے علاوہ بھوٹان واحد ملک ہے جس کے تارکین کو پوسٹل ذراٸع کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی بھی سہولت ہے۔ جبکہ افغانستان، نیپال، پاکستان اور سری لنکا کے تارکین کو تاحال ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے بیرون ملک مقیم شہریوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہئیے یا نہیں؟ اور خاص طور پر کیا انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی اجازت ہونی چاہئیے؟
اگر مندرجہ بالا اعداد و شمار کا جاٸزہ لے کر ان سوالوں کا جواب تلاش کیا جائے تو دنیا کی اجتماعی دانش یہ کہتی ہے کہ تارکین وطن کو ووٹ کا حق ملنا چاہئیے لیکن انٹرنیٹ کو اس کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئیے کیونکہ انٹرنیٹ مکمل طور پر محفوظ نہیں ہے۔ اس میں ہیکنگ کا خطرہ موجود ہوتا ہے اور ہر شخص کمپیوٹر چلانا بھی نہیں جانتا۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے سستا اور آسان ذریعہ ہونے کے باوجود ابھی تک صرف دنیا کے 9 ممالک نے اسے اپنایا ہے۔
بظاہر یہ معاملہ بہت سادہ لگتا ہے لیکن اگر یہ مسٸلہ اتنا ہی سادہ ہے تو دنیا بھر میں اب تک اس پر سوچ و بچار اور بحث کیوں جاری ہے؟ کیوں اب تک بہت سے ممالک نے اپنے شہریوں کو یہ اجازت نہیں دی؟ کیا ایسے ہر ملک میں ایک تحریک انصاف ہے جس کو الیکشن جیتنے سے روکنے کے لیے شہریوں کو اس حق سے محروم رکھا گیا ہے؟ جن ملکوں نے اجازت دی انہوں نے کیا سوچ کر دی؟ کیا اس عمل سے کوٸی خطرہ ہو ہی نہیں سکتا یا جن ممالک نے اجازت دے رکھی ہے صرف ان ممالک کو کوٸی خطرہ اس لیے نہیں کیونکہ ان ممالک کے یا تو ہہت کم شہری بیرون ملک مقیم ہیں یا پھر ان کی خارجہ پالیسی اور محل وقوع اس طرح کا ہے کہ عالمی گریٹ گیمز کا ان پر فی الحال کوٸی اثر نہیں پڑ رہا۔
بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اس بحث کو تحریک انصاف سے جوڑ دیا گیا ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کردیا گیا ہے۔
بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے حوالے سے میرے ذہن میں کچھ خدشات اور سوالات ہیں۔ میری نظر میں ساری دنیا کے ممالک بھی اگر تارکین وطن کو ووٹ کا حق دے دیں تب بھی ہمیں اپنے ملک کے محل وقوع کی اہمیت ماضی، حال اور مستقبل میں عالمی گریٹ گیمز کا پاکستان پر پڑنے والے گذشتہ اور مستقبل میں ممکنہ اثرات اور بیرون ملک پاکستانیوں کی تعداد کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہئیے۔
تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے سے پہلے ہمیں یہ بات مد نظر رکھنی چاہئیے کہ 2013ء کے الیکشن میں جیتنے والی جماعت مسلم لیگ ن نے ایک کروڑ 48 لاکھ ووٹ حاصل کیے جبکہ تحریک انصاف نے 76 لاکھ 80 ہزار اور پیپلزپارٹی نے 69 لاکھ 11 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ سرکاری اعداد شمار کے مطابق اس وقت تقریباً ایک کروڑ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں جن میں 58 لاکھ کے پاس پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ موجود ہے جو کہ ووٹ ڈالنے کی بنیادی شرط ہے۔ اگر ان 58 لاکھ پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملتا ہے تو یہ انتخابی نتاٸج کو یکسر بدل سکتے ہیں۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ پاکستانی معیشت اور زرمبادلہ کے زخاٸر بڑی حد تک بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے اپنے اہل خانہ کو بھیجی گئی رقوم پر انحصار رکھتے ہیں۔ اس مجبوری کی وجہ سے پاکستان کی حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ پاکستان میں بسنے والے لوگوں اور بیرون ملک مقیم لوگوں کی سوچ میں ہمیشہ سے فرق رہا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لیڈر پاکستان میں غیر مقبول ہوتا ہے وہ بیرون ملک شہریوں میں مقبول ترین ہوتا ہے۔ اس ضمن میں مشرف اور عمران خان کی مثال دی جا سکتی ہے۔
فرض کرلیں کہ اگر 9/11 کے وقت بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ہوتا اور مشرف صاحب اگر امریکہ کو افغانستان جنگ میں مدد دینے سے انکار کردیتے اور اس کے ردعمل میں امریکہ اور یورپ میں مقیم پاکستانیوں کو جن مشکلات اور وہاں کے لوگوں کی جس نفرت کا سامنا کرنا پڑتا، کیا ان حالات کا ووٹرز کی رائے پر کوٸی اثر نہیں پڑتا؟ یا پھر امریکہ اور یورپ مشرف کے اس اقدام کے ردعمل میں پاکستان پر دہشتگردوں کی مدد کا الزام عاٸد کرکے پاکستانیوں کو ملک بدر کرکے اپنے ملکوں میں داخلے پر پابندی عاٸد کردیتے جیسا کہ ٹرمپ نے کچھ ممالک کے لوگوں پرامریکہ میں داخلے پر پابندی عاٸد کرنے کی کوشش کی۔ اگر انہیں دنوں مشرف کا ریفرنڈم بھی ہو رہا ہوتا تو کیا متاثرین مشرف کو ووٹ دیتے یا ق لیگ کو ووٹ دیتے؟ کیا اس پوری صورت حال کا ووٹرز کی رائے پر کوٸی اثر نہ ہوتا؟
اسی طرح اگر سعودی عرب تمام عرب ممالک، امریکہ اور یورپ کو ساتھ ملا کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اگر 2018ء کے انتخابات کے بعد بننے والی نئی پاکستانی حکومت نے سعودی عرب کی مدد کے لیے یمن میں اور امریکہ اور نیٹو کی مدد کے لیے افغانستان میں فوج نہ بھیجی تو عرب ممالک، امریکہ اور یورپ سے پاکستانیوں کو بے دخل کر دیا جائے گا۔ اگر اسی تناظر میں پاکستان میں الیکشن کیمپین میں نواز شریف کا یہ موقف ہو کہ ہم فوج بھیجنا چاہتے ہیں اور عمران خان کا موقف ہو کہ ہمیں فوج کسی صورت نہیں بھیجنی چاہئیے تو تارکین وطن کس کو ووٹ دیں گے۔۔۔ نواز شریف کو یا عمران خان کو؟ کیا ایسی صورت حال ووٹرز کی رائے پر اثر انداز نہیں ہوگی؟ کیا بیرونِ ملک مقیم پاکستانی آزادانہ ووٹ کا حق استعمال کرسکیں گے؟
جہاں کسی آٸینی ترمیم پر بحث کو پارلیمانی کمیٹی تک محدود رکھنا غلط ہے وہیں سپریم کورٹ میں بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کا فیصلہ ہونا بھی غلط ہے۔ سپریم کورٹ کو چاہئیے کہ وہ اس معاملے سے خود کو دور رکھے۔ یہ سیاسی فیصلے سیاست دانوں کو ہی کرنے دے تاکہ وہ آزادانہ طریقے سے ملکی مفاد اور اس فیصلے کے اچھے اور برے سیاسی اثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے کوٸی فیصلہ لے سکیں کیونکہ نواز شریف کو الیکشن میں ہرانا اتنا ضروری نہیں جتنا پاکستان کو بیرونی اثر و رسوخ سے محفوظ رکھنا ہے۔