کراچی کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال اور متحدہ میں آپس کی لڑائی کی بدولت کراچی کی سیاست میں ایک واضح خلا پیدا ہوچکا ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں میدان میں اتر چکی ہیں۔ اس سلسلے میں ان سیاسی جماعتوں کے قائدین کے کراچی کے دورہ جات بھی شروع ہوچکے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شہرِ قائد کی عوام بدحالی سے دوچار ہے۔ نہ صاف پینے کا پانی، نہ علاج کی سہولیات، گندگی اور کچرے کے ہر طرف ڈھیر، لوڈ شیڈنگ، نہ جان و مال کا تحفظ، غرض کوئی ایسی مصیبت نہیں جس کا کراچی کی عوام کو سامنا نہ ہو۔
کراچی کی عوام کو کوئی مسیحا نظر نہیں آتا جو ان کے مسائل کو حل کرسکے۔ ایسے میں سیاسی جماعتوں نے سوچا کہ اچھا موقع ہے، گرم لوہے پر چوٹ ماری جائے اور عوامی جذبات سے کھیل کر مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
کچھ دن قبل عمران خان نے کراچی سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو بلاول بھٹو نے خیرمقدم کے ساتھ ساتھ چیلنج بھی کر ڈالا کہ آئیں کراچی سے الیکشن لڑیں اور للکارا بھی کہ کپتان کو عبرت ناک شکست سے دوچار کریں گے۔
ایسے میں مسلم لیگ ن کے نئے منتخب صدر اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گرم لوہے پر چوٹ مارنے کے لیے کراچی کے سیاسی میدان میں انٹری ماری اور دورہ جات کا آغاز کر دیا۔ لیاری میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کراچی کو نیویارک بناؤں گا اور دو سالوں میں کراچی کے مسائل حل کروں گا۔
جی بھائیو، لاہوری پیرس کی شاندار کامیابی کے بعد اب پیش خدمت ہے، کراچی والا نیویارک۔ اب پاکستانیوں کو مزید پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسلام آباد سے نیویارک تک صرف دو گھنٹے کا سفر ہوگا اور اس کے لیے نہ کوئی ویزہ چاہئیے ہوگا اور نہ ہی کوئی پاسپورٹ۔ بس ٹکٹ لیں اور نیویارک کی سیر کرکے شام کو گھر واپس آ جائیں۔
اب قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کا مزار بھی نیویارک میں شفٹ ہو جائے گا۔ اس نئے نیویارک میں صاف پینے کا پانی بھی ملے گا، دو سال کے بعد کچرے کے ڈھیر بھی غائب ہو جائیں گے، ہر طرف خوشحالی ہوگی اور پریشانیوں کے سائے چھٹ جائیں گے۔
یہ ہے وہ نیا خواب جو کراچی کی عوام کو دکھایا گیا ہے۔ اگردیکھا جائے تو یہ دعویٰ نیا نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ایسے بہت سے دعوے کیے گئے تھے جو کبھی پورے نہ ہو سکے۔ تھوڑا ماضی میں جھانکا جائے تو بڑے بڑے بلند و بالا دعووں کی ایک فہرست ہے۔ اگراس کو بیان کرنا شروع کر دوں تو ممکن نہیں ہوگا لیکن کچھ حقائق بیان کرنا ضروری ہیں۔
2013ء کے انتخاب میں لاہورکا حلقہ پی پی 159، جہاں سے شہباز شریف منتخب ہو کروزیرِ اعلیٰ پنجاب بنے، اس کی انتخابی مہم میں نعرہ لگایا کہ لاہور کو ہم پیرس بنائیں گے۔ مگرآج 2018ء میں وہاں جا کر دیکھیں اور اس حلقہ کی عوام سے پوچھیں تو کوئی ایک بندہ یہ نہیں کہے گا کہ شہباز شریف چار سالوں میں ایک بار بھی وہاں واپس آئے ہوں۔
اس حلقہ کے قبرستانوں میں گندہ پانی جا رہا ہے۔ ہر جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ گندگی کی وجہ سے نت نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ بچے بیمار ہو رہے ہیں مگر موصوف نے پلٹ کر دوبارہ حلقے میں نہیں دیکھا۔
کبھی اندھیروں کے خاتمے اورکبھی لوٹی ہوئی دولت کو پاکستان واپس لانے کا دعویٰ کیا گیا۔ زرداری کو سڑکوں پر گھیسٹنے سے لے کر ہمسایہ ممالک کو بجلی دینے تک کا دعویٰ بھی بار بار دہرایا گیا۔
2008ء کے انتخابات میں شہباز شریف بھکر سے الیکشن جیت کر وزیرِ اعلیٰ پنجاب بنے۔ وہاں میڈیکل کالج بنانے کا اعلان کیا تھا مگر دس سال گزر جانے کے بعد آج تک وہاں نہ کوئی یونیورسٹی بن سکی اور نہ ہی کوئی میڈیکل کالج۔
نومبر 2009ء میں کوئٹہ میں کارڈیالوجی سنٹربنانے کا اعلان کیا جس کے لیے بلوچستان کی حکومت نے 15 ایکٹر زمین بھی فراہم کر دی مگر 9 سال بعد بھی وہ وعدہ وفا نہ ہوسکا۔
خادمِ اعلیٰ کے جھوٹے دعوؤں کی ایک لمبی داستان ہے جو بیان کی جائے تو کبھی ختم ہی نہ ہو۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ،
خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
دُکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ حکمران کتنی ڈھٹائی کے ساتھ بیچاری دُکھی اور مسائل میں گھری عوام کا استحصال کرتے ہیں، ان کے جذبات اور احساسات کا قتل عام کرتے ہیں۔ ہم فریب دیتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ اللہ نے ہمیں کتنا بڑا منصب عطا کیا ہے۔ جناب دس سالوں سے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ہیں مگر پنجاب کی عوام آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ کب تک یہ قوم کے جذبات سے کھیلیں گے؟ ظلم کی ایک حد ہوتی ہے۔ جب ظلم اس حد سے بھی بڑھتا ہے تو پھر بڑے میاں تاحیات نااہل شریف والا حال ہوتا ہے۔ خدارا بھولی بھالی عوام جس کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں اس کے جذبات سے مت کھیلیں۔