جنسی طور ہر ہراساں کیے جانے کے واقعات ہمارے ہاں چونکہ شاذر و نادر ہی منظرِ عام پر لائے جاتے ہیں اس لیے اگر کوئی بھی شخص بنا کسی صنفی امتیاز کے (مرد یا عورت) اس واقعے کو منظر عام پر لائے تو ہمارے خود تراشیدہ “پوتر و پاک” سماج کے تصور پر اس سے کچوکے لگتے ہیں اور پاک و پوتر سماج ہونے کے دعووں کا بت پاش پاش ہوتا نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ حالانکہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات پوری دنیا میں رونما ہوتے ہیں اور جہاں جہاں انسان بستے ہیں وہاں وہاں اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ چونکہ انسان اب ایک نئ اور جدید تہذیب و تمدن کو اپنا چکا ہے اور علم و آگہی میں اپنے سے گزشتہ ادوار کے انسانوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ شعور اور علم رکھتا ہے، اس لیے وہ تمام روایات یا حرکات جو گزشتہ زمانوں میں معیوب ہونے کے باوجود قابل برداشت سمجھی جاتی تھیں، اب ناقابل برداشت تصور ہوتی ہیں۔ انہی میں سے ایک حرکت یا روایت خواتین یا مردوں کا ایک دوسرے کو جنسی طور پر ہراساں کرنا ہے۔
کسی زمانے میں عورت یا مرد جو بھی جنسی استحصال کا شکار ہوا کرتا تھا، خاموشی برتنے میں ہی عافیت گردانتا تھا۔ زمانہ بدلا، اطوار بدلے، علوم بالخصوص نفسیات کے علم نے ترقی کی، نئی بلندیوں کو چھوا اور انسانی دماغ پر تحقیق کے بعد مختلف حرکات کے محرکات کا اندازہ لگانا شروع کیا گیا۔ “وکٹم” بننے والے کے بجائے “وکٹم” بنانے والے کو مجرم گردانا گیا، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں جنسی استحصال کو ایک مکروہ ترین فعل کے طور پر گردانا جانا شروع کر دیا گیا۔ کوئی بھی ایسا جنسی عمل جس میں دوسرے فریق کی رضامندی شامل نہ ہو، جنسی استحصال اور جنسی ہراسانی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ سماج ابھی بھی مذہبی اور مقتدر اشرافیہ کے ہاتھوں “فکری استحصال” کا شکار ہے، اس لیے جنسی استحصال یا جنسی ہراسانی کے واقعات اکثریت کی سمجھ بوجھ سے ہنوز دور است ہیں۔ چونکہ سماج میں فکر اور تحقیق کے بجائے تابعداری اور اطاعت پر زور دیا جاتا ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں کسی بھی معاملے کو جانچنے کی واحد کسوٹی مذہبی عقائد اور روایات کی استعمال ہوتی ہے۔
اس کسوٹی کو استعمال کرنے میں قباحت یہ ہے کہ انسانی جذبات کے مدوجزر اور اس کی کیفیات کو زمانہ جدید کے مطابق سمجھنے کےلیے شعوری بلوغت اور فکری آزادی کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔
’’می ٹو‘‘ کے نام سے جب جنسی طور ہر ہراساں کیے جانے کے خلاف ہالی وڈ سے ایک مہم کا آغاز کیا گیا تو اس کا مقصد عام انسانوں کو یہ احساس دلوانا تھا کہ شو بزنس کے ستارے اور ان کے ہیرو یا ہیروئن اگر اس کا شکار ہو سکتے ہیں تو پھر عام آدمی بھی باآسانی شکار بن سکتے ہیں۔ اس تحریک کا دوسرا اہم مقصد عام انسانوں کو اس بات کی ترغیب دینا تھا کہ جنسی استحصال کے بعد خاموش رہ کر وہ نہ صرف خود اپنے ساتھ زیادتی کرتے ہیں بلکہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کو ایک طرح سے مزید ایسے جرائم کرنے کا موقع بھی نادانستگی میں فراہم کر دیتے ہیں۔
“می ٹو” کی اس تحریک نے دنیا بھر میں بہت سے عام انسانوں کو نہ صرف ایک ذہنی اذیت سے نجات دلائی، بلکہ انہیں سامنے آکر اپنے ساتھ بیتے گئے واقعات کو بیان کرنے اور مجرم کی نشاندہی کرنے کی ہمت بھی فراہم کی۔ “می ٹو” نامی یہ مہم چونکہ دنیا بھر میں مقبول ہوئی، اس لیے ہمارے ہاں بھی اس پر بحث مباحثے کا آغاز ہوا۔
اس بات سے قطع نظر کہ اس موضوع پر بحث مباحثہ ہمارے ہاں کس معیار کا ہے، خوش آئند امر یہ ہے کہ کم سے کم اس موضوع کو قابل بحث سمجھا گیا اور اس پر بات چیت اور مکالمے کا آغاز ہو گیا۔
حال ہی میں گلوکارہ میشا شفیع کی جانب سے گلوکار اور اداکار علی ظفر پر جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد اس موضوع پر بحث میں پھر سے ایک نئی جان سی پڑ گئی ہے۔ چونکہ الزام لگانے والی اور الزام کے زیر اثر دونوں شخصیات شو بزنس کے ستارے ہیں، اس لیے فطری طور پر یہ مسئلہ سوشل اور مین اسٹریم میڈیا پر بھرپور طریقے سے زیر بحث ہے۔
کوئی میشا کو درست قرار دے رہا ہے تو کوئی علی ظفر کے حق میں دلائل دیتا دکھائی دیتا ہے۔ میشا شفیع درست بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ علی ظفر مرتکب جرم ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ یہاں بات کسی کو مجرم یا بے گناہ ثابت کرنے کی نہیں ہے، بلکہ اس سوچ کی حوصلہ افزائی کرنے کی ہے جس کے نتیجے میں جنسی حراسانی کے شکار افراد خواہ وہ مرد ہوں یا عورت، بلا صنفی امتیاز اپنا مسئلہ بیان کرنے کی ہمت جٹا پائیں۔ اور جس کے نتیجے میں کم سے کم جنسی استحصال خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو، اس کو ایک مسئلہ سمجھا جائے اور اس کے تدارک کیلیے اذہان کی تربیت کا عمل شروع ہونے پائے۔
اہم بات یہ ہے کہ بطور سماج ہم اس فرسودہ سوچ سے نکلیں کہ اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی قسم کے جنسی تشدد کو بیان کرنے والے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس کے محرکات کا ذمہ دار عریانی فحاشی یا جنسی تشدد کا شکار، طرز زندگی کو نہ ٹھہرایا جائے۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے اگر کوئی اپنے ساتھ بیتے جنسی استحصال کے واقعے کو منظر عام پر لانے کی کوشش کرے تو اس کا ہر ممکن طریقے سے مذاق اڑاتے ہوئے اس پر عجیب و غریب اور بے معنی قسم کے لغو الزامات تھوپ دیئے جاتے ہیں۔ یا پھر ایسے معاملات کو ” مادر پدر آزاد” طرز زندگی کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے اکثر کمزور فریق کو مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان اپنا طرز زندگی کیسا رکھے اور کیسا نہ رکھے اس کا فیصلہ کرنے والے آپ یا میں کون ہوتے ہیں؟ اور اگر انسان کو سماجی دباؤ کے تحت ہی طرز زندگی اختیار کرنا ہے تو پھر آزادی کاہے کی؟
جنسی جبلت کی تسکین یا اشتہا انگیزی پر قابو نہ رکھ پانے والا ویسے بھی تسکین کےلیے شکار کا انتخاب مذہب یا طرز زندگی دیکھ کر نہیں کرتا، بلکہ موقع سے اور اپنی حیثیت و طاقت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ جنسی استحصال کرنا دراصل ایک ایسا رویہ ہے جس کی اگر حوصلہ شکنی نہ کی جائے تو یہ ایک مجموعی رویہ بن کر سماج میں قبولیت کی سند اختیار کر لیتا ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں اس قابل مذمت رویے کو قبولیت کی سند مل چکی ہے، اس لیے جنسی ہراسانی کا شکار فریق چپ رہنے میں ہی عافیت گردانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جنسی ہراسانی کے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔ اسی سبب جنسی استحصال کرنے والوں کا حوصلہ بڑھتا ہے، انہیں مزید شہ ملتی ہے، اور پھر زینب جیسی ننھی کلیوں یا بچوں سے جنسی درندگی کے واقعات یکایک سامنے آ جاتے ہیں۔ اس مذموم عمل کو روکنے کےلیے ضروری ہے کہ اس رویے کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اس پر ایک مدلل اور تعمیری بحث کا آغاز کیا جائے۔
علی ظفر یا میشا شفیع میں سے کون غلط ہے اور کون درست، یہ ایک ثانوی معاملہ ہے؛ بنیادی معاملہ یہ ہے کہ جنسی استحصال کی ہر شکل کو ناقابل معافی جرم گردانتے ہوئے اس کے محرکات کو علم نفسیات کی رو سے جانچتے ہوئے تدارک کی کوشش کی جائے۔