counter easy hit

کشمیر کے گل لالہ کو سینچنے کیلئے انسانی خون

وادی میں ایک طرف امن کے نام پر باغ گلہ لالہ کو سجایا جارہا ہے تو دوسری طرف امن کے ہی نام پر لوگوں کا خون بہایا جاتا ہے۔ ایک طرف پھولوں سے پارکوں کو سجایا جاتا ہے تو دوسری طرف مزاروں کو انسانی لاشوں سے آباد کیا جاتا ہے۔ ایک طرف بیرون ممالک سے گلہ لالہ کی خوبصورتی میں چار چاند لگانے کےلیے نئے نئے اقسام کے پھول لائے جاتے ہیں تو دوسری طرف انسانوں کو لہولہان کرنے کےلیے نئے نئے ہتھیار وادی لائے جاتے ہیں۔ ایک طرف سیلانیوں کو راغب کرنے کےلیے مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے تو دوسری طرف ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں کہ ٹورسٹ کشمیر آنے کے نام سے بھی خوف محسوس کرتے ہے۔

وادی کشمیر جو اپنے حسن و دلفریب قدرتی مناظر کی وجہ سے ایک زمانے میں دنیا بھر میں مشہور تھی، اس وقت آگ وآہن، شعلوں اور بارود کے دھویں میں اس کی خوبصورتی ماند پڑ گئی ہے۔ یہ جنت نظیر وادی اب دنیا میں خونی کھیل کی وجہ سے مشہور ہو رہی ہے اور درد دل رکھنے والے انسان خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ ایک زمانے میں جو کشمیر امن و سلامتی، مذہبی بھائی چارے، پیار و محبت، ایثار و قربانی سے سرشار تھا۔ آج اُسی کشمیر میں ایک انسان دوسرے انسان کے خون کا پیاسا بن گیا ہے۔ راتوں رات امیر بننے کے جنون میں انمول انسان کو کوڑیوں کے دام فروخت کیا جارہا ہے۔ جہاں پر دنیا میں انسان کی قیمت انمول سمجھ کر اس کے تحفظ اور حقوق کےلیے ہر ممکن اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں اور ہر چیز کو انسان سے کمتر تصور کیا جارہا ہے، اسی وادی کشمیر میں انسانی خون کو جانور سے بھی ارزاں کردیا گیا ہے اور اپنے حقیر مقاصد، نام نہاد نیشنل انٹرسٹ اور چند پیسوں، ترقیوں اور مراعات کے عوض انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارا جارہاہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو شفقت اور امن کا پیکر بناکر بھیجا تھا، مگر انسان نے دنیاوی مفادات کی خاطر انسانیت کا ہی خون کیا۔

وادی کشمیر میں گذشتہ تین دہائیوں سے جاری کشت و خون رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس میں ہزاروں ماؤں کی گود سونی ہوئی، ہزاروں گھروں کے چشم و چراغ گل ہوئے، ہزاروں بہنوں کو بھائیوں سے جدا کیا گیا۔ ہزاروں بزرگوں کے بڑھاپے کے سہارے کو ان سے چھینا گیا۔ ہزاروں خواتین کو بیوہ اور ہزاروں بچوں کو یتیم بنایا گیا۔ کبھی جنگجو کا لیبل لگا کر، کبھی مخبری کے نام پر، کبھی مزاحمتی لیڈر و کارکنوں کے نام پر، کبھی مین اسٹریم سے جڑے ہونے کی پاداش میں، کبھی پولیس کی نوکری کرنے کے جرم میں اور کبھی اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کی غرض سے فوج میں نوکری کرنے کے جرم میں انسان نے انسان کا خون بہایا ہے۔

کشمیر میں جاری ’’آزادی کی تحریک ‘‘ میں جو لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں وہ بھی انسان ہی ہیں۔ ان کے بھی ماں، باپ، بھائی بہن، رشتے ناطے ہوتے ہیں۔ کچھ ناعاقبت اندیشن لوگ راتوں رات امیر بننے کے جنون میں ان کے خون کا سودا کرتے ہیں۔ اُس وقت وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس دنیا میں جتنا بھی مال و دولت اکٹھا کر لیں، سب کچھ بالآخر یہیں چھوڑ کر جانا ہے۔ اگر کچھ ساتھ لینا ہے تو بس وہ ہے نیکی۔

جب کوئی جنگجو جاں بحق ہوجاتا ہے تو اس کومارنے والا بھی انسان ہی ہوتا ہے۔ وہ اس جنگجو کو مارتے وقت یہ خیال نہیں کرتا کہ اگر اس کو زندہ پکڑا جائے تو اس کی جان سلامت رہے گی اور اس کے اہلخانہ کو بھی داغ مفارقت سے نجات ملے گی۔ جنگجو ماں کی پیٹ سے جنگجو نہیں بنتا بلکہ وادی کشمیر میں جو حالات ہیں ان حالات کی و جہ سے ایک تعلیم یافتہ نوجوان بندوق اُٹھاتا ہے۔ جنگجو کسی پتھر کے پیٹ سے جنم نہیں لیتا، اُس کے بھی ماں باپ، بھائی بہن ہوتے ہیں جو اس کی خاطر جیتے ہیں۔ لیکن انسانیت کے دشمنوں کو اس بات سے کیا غرض ؟ اسی طرح جنگجوئوں کی بندوق سے نکلنے والی گولی کا شکار بننے والافوجی، پولیس اہلکار یا سیاسی ورکر بھی جینے کا حق رکھتا ہے، اُن کا بھی گھرانہ ہوتا ہے جہاں ان کے اپنے عزیز ان کی راہ دیکھتے رہتے ہیں۔

کسی بھی وجہ سے مارا جانے والا انسان آخر انسان ہی ہے، اس کے جذبات ہیں۔ یہ کسی کے لیے جیتا ہے اور کوئی اس کے لیے جیتا ہے۔ اس طرح سے جب بلا وجہ کسی انسان کی جان لی جاتی ہے تو وہ اپنے پیچھے ایک کہانی چھوڑ جاتا ہے۔ ہر ہلاکت کسی کے لیے زندگی بھر کےلیے درد و وکرب لیکر آتی ہے۔ ایک ماں اپنے بیٹے کےلیے زندگی بھر خون کے آنسو روتی ہے یا کوئی بھائی اپنی بہن سے جدا ہوکر بہن کو زندگی بھر کا درد دیتا ہے۔ کوئی خاوند اپنی بیوی کو ہمیشہ کےلیے آہوں اور سسکیوں میں دھکیل کر چلاجاتا ہے، تو کوئی بچہ ہمیشہ کےلیے اپنے باپ کے سائے سے محروم ہوجاتا ہے۔ غرض ہلاکت کسی کی بھی ہو، اپنے پیچھے درد چھوڑ جاتی ہے۔ غموں کا سیلاب چھوڑ جاتی ہے، آہیں اور سسکیاں چھوڑ جاتی ہے، آنسوؤں کا سمندر چھوڑ جاتی ہے۔ غرض انسانی خون بہانے سے امن قائم نہیں ہوسکتا، بلکہ اس سے ہر طرف صرف آگ ہی بھڑکتی ہے۔

ہلاکتوں کے بعد اگرچہ سرکار کرفیو کا نفاذ عمل میں لاتی ہے اور حریت لیڈران کو نظر بند کرکے نام نہاد امن قائم کیا جاتا ہے، لیکن کچھ وقت بعد پھر سے معصوم انسانوں کو اُس طرح مسلا جارہا ہے جس طرح باغ گلہ لالہ کے پھول مرجھا جاتے ہیں۔ شوپیاں میں حالیہ دنوں ہلاکتوں کے بعد اگرچہ محض دو دنوں تک وادی میں حالات معمول پر آئے اور شوپیاں، پلوامہ میں بدھ وار کے روز معمول کی زندگی پھر سے شروع ہوئی اور کاروباری اداروں کے ساتھ ساتھ اسکول بھی کھل گئے، تاہم کلگام میں تازہ شہادتوں نے ایک بار پھر جلتی پر تیل چھڑک کر روحوں کو لہولہان کردیا۔ معصوم بچوں پر گولیاں چلانے والوں سے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ کیوں ان معصوموں پر گولیاں برسائی گئیں؟ جبکہ مظاہرین کو منتشر کرنے کےلیے دیگر کئی طریقے موجود ہیں۔ اب جو لوگ مارے گئے ان کے اہلخانہ کی کیفیت کیا ہوگی۔

اس معصوم بچے کی ماں اب کس کے سہارے زندگی کے بقیہ دن گزارے گی؟ جس ماں کے اُس بچے کو چھینا گیا جسے وہ ہر روز صبح کئی بار پیار سے آوازیں دیکر نیند سے جگاتی تھی، اپنے ہاتھوں سے اسکول کےلیے تیار کرتی تھی، اسکول کی چھٹی کے وقت بچے کے انتظار میں اس راہ پر نظری ٹکائے رکھتی تھی جہا ں سے اس کا لاڈا آتا تھا۔ گولی چلانے والوں کو جواز بخشنے والے حکمران اُس بہن کو کیا جواب دیں گے جو اپنے چھوٹے بھائی کو آنکھوں کا تارا کہہ کر لاڈ پیار کرتی تھی اور اس کے ہر ناز نخرے کو برداشت کرتے ہوئے اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھی۔ اُس باپ کے ارمان اور امیدوں کا مداوا کون کرے گا جس کے ارمان اور امیدیں سسکیوں میں ڈوب گئے۔

اس خونی کھیل کا خاتمہ کب ہوگا؟ کب کشمیر میں حقیقی امن قائم ہوگا اور لوگوں کے چہرے گل لالہ کے گلوں کی طرح کھل اُٹھیں گے اور ایک بار پھر وادی کشمیر جو ایک زمانے میں امن و سلامتی کا منبع تھا، امن و سلامتی کا گہوارا بن جائے۔ کب ایک بار پھر وادی بے نظیر اپنی حقیقی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہوجائے اور اس جنت کو جہنم زار بنانے والے سازشی عناصر اور ظالم قوتوں کے ناپاک منصوبے خاک میں مل جائیں۔!