اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ بلوچستان کو خود سے حکمرانی کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی، وہاں کے لوگ سیاسی طور پر طاقت میں نہیں۔
سپریم کورٹ میں بلوچستان میں پانی کی قلت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ سابق وزرائے اعلیٰ ثناء اللہ زہری اور عبدالمالک بلوچ عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ اپنے صوبے میں پانی کی صورتحال سے مطمئن ہیں، بلوچستان میں جھیلیں سوکھ گئی ہیں آپ نے کیا اقدامات کیے؟، ہمیں بلوچستان کی بہت فکر ہے، آپ نے حکومت کو فعال کرنے کی کوشش کی؟۔
عبدالمالک بلوچ نے جواب دیا کہ حکومت کو فعال کرنے کی بہت کوشش کی، امن و امان صحیح کیے بغیر کچھ درست نہیں ہوسکتا، 2013 سے 2015ء تک جرائم کی شرح میں کمی ہوئی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ان دنوں ہزارہ برادری کے قتل عام میں کمی ہوئی؟۔ عبدالمالک بلوچ نے بتایا کہ کمی ہوئی تھی، جب اقتدار سنبھالا تو فرقہ واریت سے قتل عام میں 248 افراد ہلاک ہوئے تھے، ٹارگٹ کلنگ 248 سے کم ہو کر 48 پر آگئی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان کے لوگ سیاسی طور پر طاقت میں نہیں ہیں، بلوچستان کو خود سے حکمرانی کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے میں 6054 اسکولوں کی دیوار اور بیت الخلا نہیں ہیں، 100 اسکولوں کو بھی سالانہ اپ گریڈ کریں گے تو 6 ہزار اسکولوں کو اپ گریڈ کرنے میں 60 سال لگیں گے، کوئٹہ کے ہسپتالوں میں سی سی یو اور سہولیات نہیں ہیں، اسپتالوں کی حالت انتہائی خراب ہے جس کو دیکھ کر دکھ ہوا، جب میں نے دورہ کیا ہسپتالوں کا عملہ کئی روز سے ہڑتال پر بیٹھا تھا، بلوچستان پسماندہ نہیں بلکہ دولت سے مالامال ہے، آپ قوم کے رہنما ہیں، بلوچستان کو جید رہنما کی ضرورت ہے۔