14 مئی، فلسطینیوں کے دلوں پر ’’یوم النکبہ‘‘ عظیم تباہی کے دن کی حیثیت سے کندہ ہے، جب پوری دنیا کے سامنے ان کا وطن ان سے زبردستی چھین کر اور ان کی سرزمیں سے انہیں نکال کر یورپ کے یہودیوں کو انجانے ’’انعام‘‘ کے طور پر دے دیا گیا تھا۔ نوآبادیاتی طاقتوں نے اس عظیم نا انصافی کو نظر انداز کرتے ہوئے فی الفور اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا اور حق خود اختیاری کی علم بردار دنیا نے عرب قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔
در حقیقت تو یہ چھرا ایک صدی قبل، 2 نومبر 1917 کو اس وقت گھونپ دیا گیا تھا جب برطانوی حکومت نے بالفور اعلانیہ کے تحت عرب فلسطین کی سر زمین پر یہودیوں کا ’’وطن‘‘ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اُس دن سے اب تک فلسطینی ختم نہ ہونے والے مصایب اور عذاب میں گرفتار ہیں۔ اس عذاب کو جسے فلسطینی عظیم تباہی قرار دیتے ہیں، اس سال 14 مئی کو ستر سال پورے ہو جائیں گے۔
پچھلی سات دہائیوں کے دوران، امریکا اور دوسری بڑی طاقتوں نے اسرائیل کی پشت پناہی کی ہے اور بلا استثنی تمام عرب رہنمائوں نے اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کی خاطر، فلسطین کے عوام کے حقوق کو قربان کیا ہے۔ امریکا اور مغربی طاقتوں کے دباو کے تحت، پی ایل او ( فلسطین کی تنظیم آزادی) 1993 میں اوسلو معاہدہ پر دستخط کرنے پر مجبور ہوئی تھی جس کی رو سے پی ایل او نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا اور اسی کے ساتھ فلسطین کو آزاد کرانے کے لئے مسلح جدوجہد کے حق کو بھی ترک کرنے پر راضی ہوگئی تھی۔
اوسلو معاہدہ کے بعد سات سال تک انتظار کرنے کے بعد فلسطینی قیادت نے یہ محسوس کیا کہ اوسلو میں ان سے یکسر جھوٹے وعدے کئے گئے تھے اور محض خواب دکھائے گئے تھے، امریکا اور مغربی طاقتیں فلسطینیوں کو اپنی آزاد مملکت کے قیام کے وعدہ میں سنجیدہ نہیں تھیں۔ نتیجہ یہ کہ یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطینیوں نے انتفاضہ کے نام سے مسلح جدوجہد شروع کی۔ اس دوران 2004 میں اسرائیلیوں نے یاسر عرفات کو زہر دے کر ہلاک کردیا۔ لیکن ان کی وفات کے بعد فلسطینیوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور فلسطینیوں نے اپنی مسلح جدوجہد جاری رکھی۔
فلسطینیوں کی مسلح جدوجہد کا قلع قمع کرنے کے لئے اسرائیل نے حماس کے روحِ رواں شیخ یاسین اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنطیسی ایسے ممتاز رہنمائوں کو ہلاک کردیا۔ یہی نہیں اسرائیل نے حماس کو شکست دینے کے لئے غزہ پر چار بار بھرپور حملے کئے اور غزہ کا محاصرہ کر کے اس کی معیشت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی پھر فلسطینی انتظامیہ کو حماس کے خلاف بھڑکایا۔
اس سال’’ یوم النکبہ ‘‘بے حد سنگین حالات میں منایا جا رہا ہے۔ ایک طرف امریکا اور ایران کے درمیان جنگ کے مہیب بادل منڈلا رہے ہیں جس میں بیشتر عرب ممالک امریکا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور دوسری جانب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں عرب ممالک، فلسطینیوں کے حقوق قربان کرتے ہوئے پس پردہ اسرائیل سے گٹھ جوڑ کر رہے ہیں اور انہیں ٹرمپ کا نام نہاد ’’ امن سمجھوتہ‘‘ تسلیم کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
پھر نکبہ کے ستر سال ایسے وقت پورے ہو رہے ہیں جب کہ امریکا یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت قرار دینے کے بعد اپنا سفارت خانہ یروشلم میں کھول رہا ہے۔ ان حالات میں نہتے فلسطینی، اپنے وطن کی چھنی ہوئی سرزمین کے حق کے لئے اپنے جذبہ کے ساتھ کاغذ کے جہاز اور پتنگیں، اسرائیل کی فضا میں اڑا رہے ہیں اور اپنی سرزمین میں داخل ہونے کے کوشش کررہے ہیں۔
پچھلے چار ہفتوں کے دوران ان نہتے فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج نے غزہ کی سرحد پر گولیوں کا نشانہ بنایا ہے اور چالیس سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے۔ اس مارچ کے دوران دو سو سے زیادہ فلسطینی زخمی ہوگئے ہیں۔ صہیونی رہنما اور اسرائیل کی سابق وزیر اعظم گولڈا مئیر نے دعویٰ کیا تھا کہ فکر نہ کریں۔ بوڑھے فلسطینی مر جائیں گے اور نوجوان بھول جائیں گے۔ بوڑھے فلسطینیوں کی تو دو نسلیں ختم ہوگئیں لیکن نوجوان فلسطینیوں نے اپنے وطن کی یاد اپنے دلوں میں تازہ رکھی ہے۔ فلسطینیوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایسی قوم ہیں جو نہ مرتی ہے اور نہ شکست تسلیم کر سکتی ہے۔ اپنے وطن کی آزادی اور اپنے آبائواجداد کی سرزمین پر واپسی کی خواہش ان کے سینوں میں کبھی مدھم نہ ہونے والی آگ کی مانند سلگ رہی ہے۔