لاہور: ان کو سیاسی طور پر فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے مگر بظاہر لگ رہا ہے کہ ان کی سیاسی جماعت مزید منتشر ہو سکتی ہے ۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف عالمی اسٹیبلشمنٹ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانا چاہتے تھے اور یہ تاثر دینا چاہ رہے ہیں کہ ان
کے خلاف سزاؤں کے فیصلے کسی بدعنوانی کے سبب نہیں بلکہ عالمی بیانیے کے ساتھ کھڑے ہونے کے سبب ہیں تجزیہ کار بابر ایاز کا کہنا تھا کہ اس اعتبار سے تو خوش آئند بات ہے کہ سابق وزیراعظم کی سطح پر اس بات کا ادراک ہے کہ غیرریاستی عناصر کو استعمال کرنے کی روش ترک ہونی چاہیے ۔ لیکن موجودہ حالات میں جب پارٹی سے پہلے ہی الیکٹیبلز اڑان بھر رہے ہیں ان کو مزید دھچکا پہنچ سکتا ہے ۔ تاہم اس بات کا بھی امکان ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ ان کی مدد کو آئے ۔بھارت سے تجزیہ کار پشپندر کمار نے کہا کہ ان کے ملک میں سابق پاکستانی وزیراعظم کے بیان کو مختلف حوالے سے دیکھا جا رہا ہے ۔ کانگریس سے وابستہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بیان امریکہ میں لکھا گیا ہے اور اس کا مقصد بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو آئندہ انتخابات میں فائدہ پہنچانا ہے کیونکہ امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ نریندر مودی کے ساتھ متعدد معاہدے کر رہی ہے اور ان سے خوش ہے ۔ دوسری جانب بھارت یہ دنیا کو باور کرا رہا ہے کہ پاکستان کی حکومت عسکریت پسند گروپوں کی مدد میں ملوث ہے ۔سابق فوجی افسر بریگیڈیئر ٹیپو سلطان نے کہا ، نواز شریف عدالت میں خود کو بے گناہ ثابت نہیں کر سکے ہیں اور اس سے پہلے کہ عدالت سے سزا سنائی جائی وہ ایسا بیانیہ پیش کر رہے ہیں کہ دنیا سمجھے کہ انہیں کسی بدعنوانی نہیں بلکہ اپنے بیانیے کی وجہ سے سزا ملی ہے ۔ ان کے مطابق ایسے وقت میں جب امریکہ میں صدر ٹرمپ کی قیادت والی انتظامیہ موجود ہے ، نواز شریف کا یہ بیان ملک کی سکیورٹی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے ۔ بابر ایاز کہتے ہیں کہ پاکستان میں طاقت کے حصول کے لیے رسہ کشی جاری ہے اور نواز شریف کا بیان امریکہ کو خوش کر سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا بیان گہرے اثرات کا حامل ہو سکتا ہے۔