14 مئی کو یروشلم میں جب فلسطینیوں اور دنیا بھر کے آزادی پسند عوام کے شدید احتجاج کو ٹھکراتے ہوئے امریکی سفارت خانہ کے افتتاح کی رسم ادا کی جارہی تھی تو 75 کلو میٹر دور، محصور غزہ میں اپنے چھنے ہوئے وطن کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کرنے والے فلطینیوں پر اسرائیلی فوج اندھا دھند فائرنگ کر رہی تھی۔ ایک شام میں اسرائیلی فوج نے 59 نہتے فلسطینیوں کو ڈھیر کر دیا جن میں چند ماہ کا بچہ بھی شامل ہے جو اشک آور گیس سے دم گھٹنے سے جاں بحق ہوگیا۔
عین اس وقت جب غزہ میں فلسطینیوں کی لاشیں گر رہی تھیں، امریکی صدر ٹرمپ کا یہودی داماد کوشنر کہہ رہا تھا ’’ مجھے فخر ہے کہ میں یہودیوں کے ابدی دل یروشلم میں موجود ہوں۔ ہم۔ ۔ امریکا اور اسرائیل شانہ بشانہ کھڑے ہیں کیوں کہ ہم آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں کیونکہ ہم انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں کیونکہ ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ جمہوریت کا دفاع ہمارا ادرش ہے۔ ‘‘
پھر 75 کلومیٹر دور غزہ میں اپنی آزادی کے لئے جان دینے والے فلسطینیوں کے بارے میں ٹرمپ کے داماد کوشنر نے کہا کہ ’’ یہ لوگ جو تشدد بھڑکا رہے ہیں مسئلہ کا حل نہیں بلکہ مسئلہ کی وجہ ہیں۔ ‘‘
ٹرمپ کے داماد کے یہ کلمات در حقیقت فلسطینیوں کی لاشوں پر رقص کرنے کے مانند تھے۔ محصور غزہ میں زخمی فلسطینی بے بسی کے عالم میں خار دار تاروں کی باڑھ میں ٹنگے ہوئے تھے۔ اسرائیلی فوج کی اتنی شدید فائرنگ ہورہی تھی کہ ان کے پاس کوئی نہیں پہنچ پا رہا تھا اور کوئی ایمبولنس تک نہیں پہنچ سکی تھی۔
شمالی غزہ میں انڈونیشیا ہسپتال کا مردہ خانہ، فلسطینیوں کی لاشوں سے بھر رہا تھا اور یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کے افتتاح کی تقریب میں خوشی سے پھولے نہ سمائے اسرائیلی وزیر اعظم نیتھن یاہو امریکا اور امریکی صدر ٹرمپ کی تعریف کے ڈونگرے برسا رہے تھے۔ ’’دوستو، کیا شاندار دن ہے آج کا۔ آج تاریخ رقم کی جارہی ہے۔ مسٹر ٹرمپ، آپ تاریخ تسلیم کرتے ہوئے تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ ‘‘
یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کی منتقلی کے خلاف احتجاج کرنے والے فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج بری طرح سے زدو کوب کر کے پیچھے دھکیل رہی تھی اس موقعہ پر خوشی سے رقص کرنے والے یہودیوں کا مجمع نعرے لگا رہا تھا’’ آگ لگا دو انہیں، گولی ماردو انہیں، ہلاک کر دو انہیں۔ ‘‘
یہ سب اس روز ہورہا تھا جب اسرائیل کے قیام کو ستر سال مکمل ہو گئے تھے اور فلسطینی تباہی اور بربادی کا وہ دن منا رہے تھے جب ستر سال قبل لاکھوں فلطینیوں کو ان کے گھروں سے اور ان کے وطن کی سرزمین سے جبراً نکال کر صدیوں سے ان کے آبائو اجداد کی سر زمین، یورپ کے یہودیوں کے حوالہ کر دی گئی تھی۔
ستر سال پہلے بھی مغربی طاقتیں خاموشی سے اس عذاب کو دیکھتی رہیں تھیں جو فلسطینیوں پر ٹوٹ رہا تھا۔ اور ستر سال بعد بھی دنیا خاموشی سے فلسطینیوں کی لاشوں پر امریکیوں اور اسرائیلوں کا رقص دیکھتی رہی۔
عالم اسلام میں واحد ملک ترکی نے اس ظلم کے خلاف بطور احتجاج اپنا سفیر امریکا سے واپس بلا لیا اور اس کے ساتھ جنوبی افریقہ نے بھی اپنے سفیر امریکا اور اسرائیل سے واپس بلا لئے۔
اپنے آپ کو اسلامی جمہوری کہلانے والا پاکستان ’’ خوابِ مصلحت ‘‘میں سویا رہا۔ بلکہ اس روز امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسلام آباد میں امریکی فوجی اتاشی کرنل جوزف کو امریکی فوج کے حوالہ کردیا، جس نے 7 اپریل کو اسلام آباد میں ٹریفک کا اشارہ توڑ کر ایک نوجوان پاکستانی طالب علم کو ہلاک کردیا تھا۔ اس بار تو ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی طرح دیت کا ڈرامہ بھی نہیں کھیلا گیا۔