کراچی: نقیب اللہ قتل کیس میں مدعی مقدمہ نے راؤ انوار کو سب جیل میں رکھنے پر تحریری اعتراضات عدالت میں جمع کرادیے۔
نقیب اللہ کے والد کے وکیل فیصل صدیقی نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو جیل کے بجائے سب جیل قرار دی گئی ان کی رہائش گاہ میں رکھنے پر اپنے اعتراضات جمع کرائے ہیں۔
تحریری اعتراض میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مفرور راؤ انوار کو سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا، راؤ انوار کو سپریم کورٹ کی ہدایت پر ریمانڈ کے لئے منتظم جج کے روبرو پیش کیا گیا، ایک ماہ کے ریمانڈ کے بعد ملزم کو جیل بھیجا گیا، ملزم نے کسی قسم کے سیکیورٹی خدشات کی شکایت نہیں کی لیکن اس کے باوجود 21 اپریل کو آئی جی جیل خانہ جات نے زبانی احکامات پر ملتان لائینز ملیر کینٹ کو سب جیل قرار دے دیا، سب جیل قرار دینے کا کوئی نوٹی فکیشن بھی پیش نہیں کیا گیا، راؤ انوار کو جیل کی بجائے سب جیل میں رکھنا غیر قانونی قرار دیا جائے۔
نقیب اللہ کیس کا پس منظر
13 جنوری 2018 کو کراچی کے ضلع ملیر میں اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے ایک مبینہ پولیس مقابلے میں 4 دہشتگردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ ہلاک کئے گئے لوگ دہشتگرد نہیں بلکہ مختلف علاقوں سے اٹھائے گئے بے گناہ شہری تھے جنہیں ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ایک نوجوان کی شناخت نقیب اللہ کے نام سے ہوئی۔
سوشل میڈیا صارفین اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا۔ از خود نوٹس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور اسلام آباد ایئر پورٹ سے دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔