counter easy hit

پاکستان، ماحولیات اور اگلے انتخابات

کراچی: شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو جب پاکستان کے حوالے سے آب و ہوا میں تبدیلی، ماحولیات اور پانی کے مسائل پر کوئی خبر نہ آتی ہو۔ اب یہ مسائل اتنے عام ہوچکے ہیں کہ بچوں تک کو یہ شعور ہوچکا ہے کہ ہمارے ملک کے موسموں کا مزاج بگڑ چکا ہے، پاکستان پانی کی قلت کے دہانے پر کھڑا ہے اور موسمیاتی شدت نوشتہ دیوار کی طرح سامنے موجود ہے۔

اس تناظر میں پہلے تازہ خبر سن لیجئے کہ خریف کی فصلوں کے لیے پانی کی قلت کا جو اندازہ لگایا گیا تھا وہ اب 52 فیصد تک پہنچ چکا ہے جس پر ارسا کے تمام اراکین نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس سے ایک ماہ قبل عالمی بینک نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان میں ہر سال 20 ہزار سے زائد افراد فضائی آلودگی سے کئی امراض کے شکار ہوکر لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس میں سب سے ذیادہ متاثرہ شہرکراچی ہے جہاں ہر سال 10 سے 12 ہزار افراد ہلاک ہورہے ہیں۔

لیکن ان خوفناک واقعات کے باوجود کیا سیاسی جماعتیں اس ہولناک صورتحال کا شعور رکھتی ہیں؟ اگلے انتخابات میں کرپشن اور اسکینڈلز کےبجنے والے نقاروں میں ماحولیات اور صحت کی طوطیوں کی آواز کسی سماعت تک پہنچ بھی رہی ہیں یا نہیں؟ میرا اشارہ ان لوگوں کی جانب ہے جو اگلے پانچ برس تک میری اور آپ کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے اور اس ملک کے طول وعرض کا انتظام انہیں کے ہاتھوں میں ہوگا۔

سچ پوچھئے تو خود مجھے بھی یہ خیال نہ تھا الیکشن اور ماحولیات کا ایجنڈا کتنا اہم اور ضروری ہے کہ منگل 14 مئی کی صبح ماحولیاتی صحافت سے وابستہ ہمارے محترم دوست محمود عالم خالد کا ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے کراچی پریس کلب میں ایک برمحل موضوع پر پریس کانفرنس کا بیڑہ اٹھایا جس کا عنوان ’ موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی مسائل اور الیکشن 2018‘ تھا۔ تقریب میں پاکستان کے ممتاز ماحولیات داں آبی وسائل کےماہر اور درد مند شخصیت جناب پرویز امیر کو خصوصی خطاب کرنا تھا۔ یہ تقریب محمود عالم خالد کے ماحولیاتی جریدے ’فروزاں‘ کے زیرِ اہتمام منعقد کی گئی تھی۔

وقت کی تنگی کے باوجود ڈاکٹر پرویز امیر نے نہایت مدلل انداز میں پاکستان کا ماحول نامہ اور اہلیانِ سیاست کا بے خبرنامہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات میں حصہ لینے والی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں آب و ہوا میں تبدیلی اور ماحولیاتی مسائل کو یکسر نظر انداز کررہی ہیں اور یہ مسائل ان کے منشور میں شامل نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں پانی کی شدید قلت ایک بحران کی صورت میں موجود ہے۔ عالمی بینک کی ایک تازہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں حیدرآباد سمیت دیگر 10 اضلاع پانی کی شدید قلت کی طرف بڑھ رہے اور اگلے 20 برس میں وہاں سے لوگ نقل مکانی کریں گے اور دوسری جانب ماحولیاتی مسائل غذائی قلت کو جنم دیں گے ۔

پرویز امیر نے بتایا کہ موسموں کا بگڑنا ہو، پانی کی قلت ہو، صحرازدگی ہو، گلیشئر کا پگھلنا ہو، ڈیلٹا کا سکڑنا ہو یا صحت کے مسائل ہوں پاکستان ان تمام مسائل کی شدید ترین کیفیات سے دوچار ہیں اور اب وہ واضح ہوچکی ہیں۔ انہوں نے نہایت دردمندی سےالیکشن2018میں حصہ لینے والی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات 2018 میں موسمیاتی وماحولیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئےذیل کے ان مسائل کو اپنے منشور کا حصہ بنائیں۔ یہ مطالبات پرویز امیر، معروف کالم نگار مقتدیٰ المنصور، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جرنل ڈاکٹر قیصر سجاد، ماہرِ موسمیات توصیف عالم اور محمود عالم خالد نے تمام سیاسی جماعتوں کے سامنے ایک قرار داد کی صورت میں رکھے۔ ان مطالبات کو پورے پاکستان کا سیاسی منشور بھی کہا جاسکتا ہے۔

درجہ حرارت میں اضافہ

پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ملکوں میں  سرفہرست ہے جبکہ گرین ہاؤ س گیسوں کے اخراج میں ہماراکوئی حصہ نہیں ہم اس حوالے سے 135ویں نمبرپر ہیں۔ گزشتہ ماہ 5اپریل کو نوابشاہ میں دنیا کا سب سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیاگیا۔ دنیابھر کے معتبر ادارے درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے سے متعلق جو پیش گوئیاں کررہے ہیں پاکستان میں درجہ حرارت کے اضافے کی شرح ان پیش گوئیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا یہ مظہر 5عوامل پر اثرانداز ہوگا جس میں سب سے پہلازراعت ،جنگلات، بائیوڈائیورسٹی، صنعتیں، پانی کے وسائل اورصحت کے مسائل سرفہرست ہیں۔

درختوں کی بے دریغ کٹائی

پاکستان میں درختوں اورجنگلا ت کی کٹائی تیزی سے جاری ہے جس کی بنیاد ی وجہ ٹمبرمافیا اور لوگوں میں شعور کی کمی ہے جبکہ پاکستان کے شہری علاقوں میں زمینیں ختم کرکے بلند وبالا بلڈنگیں بنائی جارہی  ہیں جودرختوں کے لیے سب سے بڑانقصان ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں ہنگامی بنیادوں پربالخصوص طالب علموں کے ساتھ مل کر درختوں کی حفاظت کی خصوصی مہم چلاناہوگی کیونکہ درخت لگاناکوئی بڑی بات نہیں ہے بلکہ ان کی پرورش کرنااصل کام ہے۔

صحرازدگی

پاکستان میں کئی علاقے بتدریج صحرا میں بدل رہے ہیں۔ پانی کی کمی بارش کانہ ہونا، حکومتی عدم توجہ کے ساتھ کئی علاقوں میں حیوانات کی آبادیوں میں بھی اضافہ ہورہاہے جس کی وجہ سے بھی صحرا زدگی میں اضافہ ہورہاہے۔ ۔

غذائی عدم تحفظ

موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ملک کی زراعت سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہے جس کی وجہ سے غذائی قلت اور ان کی قیمتوں میں اضافہ ہورہاہے۔ اندازہ لگایاگیاہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں پیداوار کی شدیدکمی واقع ہوگی جس کی وجہ سے گندم میں20سے30فیصد جبکہ چاول کی پیداوار میں بھی کمی واقع ہوگی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں آبادی کا ایک بڑا حصہ اب بھی ناکافی غذائیت کی شکار ہیں۔

ماحولیاتی انحطاط ، غربت اور نقل مکانی

دریاؤں سے لے کر کھلیانوں تک پاکستان میں ماحولیاتی انحطاط عروج پر ہے۔ اس سے غربت، غذائی قلت اور بالآخر نقل مکانی کو فروغ ملے گا ۔ اس طرح انسانی مسائل مزید گھمبیر ہوجائیں گے۔ ڈاکٹر پرویز امیر نے دریائے سندھ کی صحت اور ماحولیاتی حالت بہتر رکھنے کے لیے ایک قومی کمیشن کی تشکیل پربھی زور دیا۔