مصر کے صدر عبدالفتح سیسی نے غیر متوقع طور پر غزہ کے ساتھ منسلک سرحد پر قائم رفح کراسنگ پوائنٹ کو ایک ماہ کے لیے کھولنے کا اعلان کردیا، جس کے بعد ماہ مقدس میں فلسطینی باآسانی سرحد پار آسکیں گے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر جاری کیے گئے بیان میں عبدالفتح سیسی کا کہنا تھا کہ اس کراسنگ پوائنٹ کو کھولنے کا مقصد مقبوضہ فلسطین کے محصور علاقوں میں رہائش پذیر افراد کی مشکلات کم کرنا ہے۔ واضح رہے کہ رفح کراسنگ پوائنٹ غزہ کو بیرونی دنیا سے منسلک کرنے والا واحد راستہ ہے جو اسرائیل کے زیر اثر نہیں لیکن مصر نے اسے سیکیورٹی خطرات کا بہانہ بناکر کافی عرصے سے مکمل طور پر بند کر رکھا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مذکورہ راستے کو آخری مرتبہ 2013 میں 3 ہفتے کے لیے کھولا گیا تھا جبکہ فلسطینی سال میں اسے چند دن ہی استعمال کر پاتے ہیں۔ خیال رہے کہ جزیرہ نما سینائی میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے پیش نظر یا دیگر وجوہات کو جواز بنا کر اس راستے کو کھولنے کے اقدامات محدود کردیئے گئے تھے۔ مصر کے صدر کا سرحد کھولنے سے متعلق حالیہ اعلان غزہ کی سرحد پر اسرائیلی افواج کی جارحیت کے سبب 60 سے زائد فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے کے بعد سامنے آیا اور مصر کی وزارت خارجہ کی جانب سے مقتولین کے لیے ’شہید‘ کا لفظ بھی استعمال کیا گیا۔
واضح رہے کہ 30 مارچ سے اب تک غزہ کی سرحد پر ہونے والے مظاہروں میں 114 فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ امریکا کی جانب سے سفارت خانہ یروشلم میں منتقل کرنے کے بعد سے صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے۔ یاد رہے کہ مصری حکومت کے فلسطین اور اسرائیل دونوں کے حکمرانوں سے تعلقات ہیں، اس لحاظ سے مصر دونوں اطراف کے معاملات میں پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا، جس سے اس خطے میں رہائش پذیر 20 لاکھ افراد پر موجود دباؤ کچھ کم ہوسکے گا۔
اس ضمن میں حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ نے گزشتہ دنوں مصر کا دورہ کیا اور مصر کے خفیہ ادارے کے ڈائریکٹر عباس کمال سے ملاقات کی۔ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے اسرائیل نے غزہ کو محصور کیا ہوا ہے، جس کے بارے میں صہیونوں کا کہنا ہے کہ حماس کو تنہا کرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا جبکہ 2008 سے اب تک حماس اور اسرائیل کے مابین 3 جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ تاہم اسرائیل کے اس عمل پر یہ تنقید کی جاتی رہی ہے کہ حماس کے نام پر غزہ میں محصور تمام رہائشیوں کو سزا دی جارہی ہے، جہاں اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 47 فیصد افراد خوراک کی خراب صورتحال سے متاثر ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی سرحد کے ساتھ پیش آنے والے اسرائیلی جارحیت کے حالیہ واقعات کے بعد غزہ کی صورتحال پرغور کے لیے اسلامی دنیا کی نمائندہ تنظیم، اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا گیا۔ اس حوالے سے ترک صدر رجب طیب اردگان کا کہنا تھا کہ اس غیر معمولی اجلاس میں اسرائیل کے فلسطینیوں پر کیے گئے وحشیانہ مظالم پر دنیا کو اہم پیغام دیا جانا چاہیے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق بیت المقدس میں جمعے کی نماز کی ادائیگی کے لیے آنے والے فلسطینیوں کو مغربی کنارے کے قصبے بیت اللہم سے گزرتے ہوئے اسرائیلی چیک پوائنٹ پر روک لیا گیا۔
جس کے بعد اسرائیلی انتظامیہ نے تمام افراد کی میٹل ڈیٹیکٹر سے تلاشی لی اور ان کے سامان کی بھی تلاشی لی گئی جبکہ وہیل چیئر پر موجود 2 افراد کو بارڈر پر موجود اہلکاروں نے چیک پوائنٹ سے واپس دھکیل دیا۔
غزہ کی بگڑتی صورتحال
فلسطین میں 30 مارچ سے شروع ہونے والے احتجاج میں اسرائیلی فوج کی جانب سے اب تک 114 فلسطینیوں کو جاں بحق کیا جاچکا جبکہ 9 ہزار 400 سے زائد زخمی ہیں۔ غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ غزہ پٹی کے قریب تقریباً 10 ہزار فلسطینیوں کی جانب سے احتجاج کیا جارہا ہے اور فوجی وہی طریقہ کار اپنا رہے ہیں جو آپریشن کے دوران اپنایا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ یروشلم میں امریکی سفارتخانے کا افتتاح خاص طور پر اسرائیل کے قیام کی 70 ویں سالگرہ پر کیا گیا اور اس میں شرکت کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ خصوصی طور پر اپنے شوہرجیرڈ کشنر کے ہمراہ اسرائیل پہنچیں تھیں۔ اس افتتاح کے پیش نظر فلسطینی مظاہروں میں شدت آگئی، یہ احتجاج ’گریٹ مارچ آف ریٹرن‘ تحریک کا حصہ تھا، جس میں شامل مظاہرین پر اسرائیلی فوج کی جانب سے اندھا دھند گولیاں اور آنسو گیس کے شیل برسائے گئے۔ غزہ میں جاری کشیدہ صورتحال پر کئی ممالک کی جانب سے اسرائیل فوج کی ان وحشیانہ کارروائیوں کی سخت مذمت کی گئی۔