لاہور (ویب ڈیسک )زمانہ بدلتا ہے تو سب کچھ نہیں تو بہت کچھ ضرور بدل جاتا ہے۔ رسم و رواج بدل جاتے ہیں۔ اخلاقی اقدار بدل جاتی ہیں حتیٰ کہ شاہی آداب بھی بدل جاتے ہیں۔ ایک زمانہ وہ تھا جب انگلستان میں شاہی خاندان کے ایک فرد نے ایک طلاق یافتہ امریکی عورت سے شادی کی تو اسے شاہی تخت سے ہی محروم ہونا پڑ گیا تھا۔ اور ایک زمانہ یہ ہے کہ اسی شاہی خاندان کا ایک شاہ زادہ امریکہ کی ایک مطلقہ اور ایک بچے کی ماں سے شادی کرتا ہے تو دھوم دھام کی انتہا کر دی جاتی ہے۔
یہ خاتون نسلی طور پر گوری بھی نہیں ہے، سانولی ہے اور کسی بڑے خاندان سے بھی اس کا تعلق نہیں ہے۔ وہ ایکٹریس ہے، اور وہ بھی کوئی مشہور و معروف ایکٹریس نہیں ہے۔ اب رہی شکل صورت کی بات۔ تو وہاں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’بس، اللہ کی بندی ہے‘‘۔ بڑے بھائی کی بیوی بھی کسی بڑے شاہی خاندان سے تعلق نہیں رکھتی، مگر وہ خوبصورت تو ہے۔ اور پھر شہزادے کی ماں؟ وہ تو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی۔ ’’اتنی خوش شکل ماں کے بیٹے نے ایسی عورت پسند کر لی؟‘‘۔ ہم بیرونی ٹی وی چینلز پر آنکھیں پھاڑے شہزادے کی بارات کے منظر دیکھ رہے تھے اور وہ تبصرے بھی سن رہے تھے جو ہمارے اردگرد کئے جا رہے تھے۔ ان تبصروں میں ایک تبصرہ یہ بھی تھا کہ اس شہزادے کے باپ نے بھی تو اپنی بے انتہا خوبصورت بیوی چھوڑ کر ایک زیادہ عمر کی عورت سے شادی کر لی تھی
ایک طرف سے یہ بھی آواز آئی کہ یہ شادی چلے گی نہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ اس شاہی خاندان کی خواتین میں خوبصورتی برائے نام ہی پائی جاتی ہے۔ ملکہ وکٹوریہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ کوئی نہیں کہہ رہا تھا کہ ایک عام سی شکل کی عورت پر شہزادے کا دل آ گیا۔ ظاہر ہے یہ دل کا معاملہ ہے کوئی دل لگی نہیں۔ اور ہاں، کسی صاحب نے یہ بھی یاد دلایا کہ وہاں شادی پر اربوں روپیہ خرچ ہو گیا۔ اور کسی نے شکایت نہیں کی کہ ہمارے ٹیکسوں کا پیسہ اس طرح کیوں خرچ کیا جا رہا ہے ہم یہ سب سن رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ وقت کے ساتھ سب کچھ کیسے تبدیل ہو جاتا ہے۔ انگلستان کے شاہی خاندان نے تو بہت پہلے جان لیا تھا کہ نئے زمانے کے تقاضے کیا ہیں۔ انہوں نے قبول کر لیا کہ ان کا شہزادہ ایک عام سی عورت کو پسند کرے اور ایسے تام جھام کے ساتھ شادی کرے جیسے کسی خوبصورت کنواری دوشیزہ سے کی جا رہی ہو تو ان کے شاہی ادب آداب کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ ایڈورڈ ہشتم نے دو مرتبہ کی طلاق یافتہ امریکی عورت سے شادی کی تھی تو انگلستان کے عوام بھی اس سے ناراض ہو گئے تھے۔
کلیسا خاص طور پر اس سے ناخوش تھا۔ لیکن اب وہاں صرف شاہی خاندان نے ہی نہیں عام لوگوں نے بھی یہ شادی قبول کر لی ہے۔ شادی کے ایک دن پہلے سے ان تمام سڑکوں پر میلوں تماشائیوں کی قطاریں لگ گئی تھیں جہاں سے بارات گزرنے والی تھی۔ اور وہ سب خوش تھے۔ نعرے لگا رہے تھے اور جھنڈے لہرا رہے تھے۔ وہ سب بھول گئے تھے کہ شہزادہ کس سے شادی کر رہا ہے۔ لیکن ہمیں سب یاد تھا کہ یہ شہزادہ کہاں پھنس گیا ہے۔ اب ہم آپ کو یہ یاد دلا کر پریشان کرنا نہیں چاہتے کہ ہم تو ہر دوسرے دن یہ خبر پڑھتے ہیں کہ فلاں شہر یا فلاں گائوں میں باپ نے یا بھائیوں نے اپنی بیٹی یا اپنی بہن کو اس لئے جان سے مار دیا کہ وہ اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ یا پھر لڑکی کے بھائیوں نے اس لڑکے کو مار ڈالا جس نے ان کی اجازت کے بغیر ان کی بہن سے شادی کر لی تھی۔ یا پھر دونوں کو ہی مار ڈالا۔ اب ہم اس سے آگے کچھ کہنا نہیں چاہتے کہ یہ جذباتی مسئلہ ہے اور ہمیں جذباتی کالم لکھنا نہیں آتے۔ ہم تو صرف اتنا ہی عرض کریں گے
کہ وقت اور زمانہ بدلتا ہے تو بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ ہمیں بھی بدل جانا چاہئے۔ ہم کب تک آگے نہیں، پیچھے ہی دیکھتے رہیں گے۔
چلیے، اب ایک ایرانی لوک کہانی پڑھ لیجئے۔ پرو فیسر معین نظامی فارسی کے استاد ہیں۔ قدیم و جدید فارسی کے پارکھ ہیں۔ انہوں نے ’’سفید پرندہ‘‘ کے نام سے بائیس ایرانی لوک کہانیوں کا ترجمہ کیا ہے۔ ایک کہانی آپ بھی پڑھ لیجئے۔ اس کا نام ہے ’’انار اور مچھلی‘‘ ایک ندی تھی اور اس کے کنارے انار کا ایک درخت تھا۔ درخت پر کچھ انار لگے ہوئے تھے اور ندی میں کچھ مچھلیاں بھی دمیں ہلا رہی تھیں۔ زمین کے نیچے سے درخت کی جڑیں ندی میں پائوں پھیلانے لگی تھیں۔ مچھلیوں نے کئی بار اناروں سے کہا تھا کہ ہمارے گھر میں ٹانگیں نہ پھیلائیں۔ لیکن انہوں نے سنی اَن سنی کر دی تھی۔ مرتا کیا نہ کرتا مچھلیوں نے طے کر لیا کہ درخت کی جڑیں چبا ڈالی جائیں۔ مچھلیوں نے جڑیں چبانا شروع کر دیں۔ اناروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اب کی بار مچھلیوں نے سنی اَن سنی کر دی۔ اناروں نے آپس میں مشورہ کیا اور ان میں سے ایک انار نے خود کو ایک مچھلی پر گرا لیا۔ مچھلی کا سر پھٹ گیا۔
خون بہنے لگا۔ ساری ندی سرخ ہو گئی۔ مچھلیوں نے انار کو پکڑ لیا۔ اناروں نے احتجاج کیا کہ تمہیں ہمارے ساتھی کو گرفتار کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ آخر ہم ایک ملک میں رہتے ہیں۔ یہاں ایک قانون ہے اور ایک قاضی ہے۔ ایک مچھلی نے کہا تمہیں کس نے حق دیا کہ ہمارے گھر میں ٹانگیں پھیلائو۔ انار کہنے لگا پانی صرف تمہارا تھوڑی ہے ہمارا بھی تو ہے۔ یہ ندی تمہاری پیدائش سے پہلے سے موجود ہے اور ہم بھی اسی وقت سے ہیں۔ مچھلیاں کہتی رہیں کہ تم نے ہماری ایک ساتھی کا سر پھوڑ دیا ہے۔ بات کسی طرف نہ لگی اور ان میں تُو تکار بڑھ گئی۔ آخر قاضی کے ہاں جانا طے پایا۔ انہیں دیکھتے ہی قاضی کی رال ٹپکنے لگی۔ اس نے کہا کہ آپ ذرا انتظار کر لیجئے۔ میں دوسروں کے معاملے نبٹا لوں۔ انار اور مچھلی ایک کونے میں کھڑے ہو گئے۔ قاضی کام ختم کر کے ان کے پاس آیا۔ اس نے دونوں کے ماتھے پر ہاتھ پھیرا، بہت دلاسہ دیا۔ پھر اپنی بیوی کو آواز دے کر کہا بیگم توے پر خوب گھی ڈال کر چولہے پر چڑھا دو۔ دوپہر کو ہم مچھلی کھائیں گے۔ اور ہاں سنو، یہ انار بھی لے جائو
اس کا رس مچھلی پر چھڑکیں گے تو اور ہی مزہ آئے گا۔یہ سن کر انار اور مچھلی کے ہاتھ پائوں ٹھندے ہو گئے۔ انہوں نے قاضی کی بیگم کی بہت منت سماجت کی کہ ہمیں جانے دو۔ ہمیں ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ مگر بیگم نے کہا کہ فیصلہ قاضی کا ہے۔ مجھے تو اس پر عمل کرنا ہے، یہ کہہ کر اس نے مچھلی کی کھال اتاری اور اسے توے پر چڑھا دیا۔ پھر اس نے انار کا رس نکالا اور تلی ہوئی مچھلی پر چھڑک دیا۔ اور پھر قاضی اور اس کے بیوی بچوں نے خوب ڈٹ کر کھایا۔ یہ خبر اناروں اور مچھلیوں تک بھی پہنچ گئی۔ وہ دکھ درد میں ڈوب گئے۔ انہوں نے دونوں کا سوگ منایا۔ سوگ کے دنوں میں ہی وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ قاضی اگر باہر کا ہوا تو وہ ان کے لئے کچھ نہیں کرے گا۔ انہوں نے آپس میں معاہدہ کیا کہ اب ایک دوسرے کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کیا کریں گے۔‘‘ کہانی آپ نے پڑھ لی۔ کیا یہ کہانی آپ سے بھی کچھ کہتی ہے یا نہیں؟ لوک کہانیوں اور قدیم حکایتوں میں یہی تو خوبی ہوتی ہے کہ وہ ہم سے کچھ کہتی ہیں۔ وہ ہمیں کچھ بتاتی ہیں