واشنگٹن: پاکستان نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں پر معاہدے کے ثالثی عالمی بینک سے رجوع کرلیا۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق پاکستان کی جانب سے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی قیادت میں 4 رکنی وفد نے گزشتہ روز عالمی بینک کے صدر اور دیگر حکام سے ملاقات کی اور بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں پر پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا۔ پاکستان نے موجودہ صورت حال پر عالمی بینک سے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست بھی کی۔
دوسری جانب عالمی بینک کی ترجمان علینا کارابان کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدہ ایک انتہائی اہم بین الاقوامی سمجھوتہ ہے جو پانی کی منصفانہ ترسیل اور وسائل کی معاہدے کے تحت تقسیم کو یقینی بناتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ معاہدہ موجودہ اور مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور بھارت کو تعاون کا موثر فریم ورک فراہم کرتا ہے تاکہ ترقیاتی اہداف کا حصول اور انسانی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
واضح رہے کہ سندھ طاس معاہدے میں تحفظات سے متعلق پاکستان کے وفد کے ساتھ منگل اور بدھ کو ملاقات شیڈول ہیں۔ گزشتہ روز ہونے والی ملاقات میں کشن گنگا دریا پر قائم ہونے والے ڈیم کی اونچائی اور اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی حد پر گفت و شنید کی گئی جب کے آج ہونے والی ملاقات میں پاکستان کا تنازع کو حل کرنے کے لیے ثالثی عدالت کے قیام کے مطالبے اور اس کے جواب میں بھارت کی جانب سے بین الاقوامی ماہرین سے مدد لینے کے معاملے پر تبادلہ خیال ہوگا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے ’سندھ طاس‘ معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے ضامن میں عالمی بینک بھی شامل ہے۔ معاہدے کے تحت بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی ملے گا یعنی اُس کا ان دریاؤں پر کنٹرول زیادہ ہو گا جب کہ جموں و کشمیر سے نکلنے والے مغربی دریاؤں چناب اور جہلم اور سندھ کا زیادہ پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔
تاہم بھارت اس معاہدے کو توڑتا آیا ہے جس پر پاکستان عالمی بینک سے رجوع کرتا آیا ہے اس بار بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 21 مئی کو پاکستان کے احتجاج کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں متنازعہ کشن گنگا پاور پلانٹ کا افتتاح کر دیا۔ بظاہر تو اس ڈیم کی تعمیر کا مقصد بجلی کی پیداوار ہے تاہم اس بہانے بھارت نے پانی پر قبضے کا منصوبہ بنایا ہے اور یہ سندھ طاس معاہدے کی یکسر خلاف ورزی بھی ہے۔