بیشتر مذاہب کی تعلیمات اپنے پیروکاروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ وہ انسانیت کی خدمت کریں، لیکن اسلام کے علاوہ کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جو اتنی سختی سے ان تعلیمات پر عمل کی ترغیب دیتا ہو۔ ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ پاکستان کے لوگ ہمیشہ کی طرح آگے بڑھیں گے اور اپنے طور پر ہر ممکن طریقے سے دوسروں کی مدد کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی پوری زندگی انسانیت کی خدمت کےلیے وقف کردیتے ہیں۔ انہی میں سے ایک عظیم انسان ڈاکٹر محمد امجد ثاقب ہیں جو غیر منافع بخش تنظیم ’’اخوت‘‘ کے بانی ہیں۔
عربی زبان میں اخوت کا مطلب بھائی چارہ ہے اور یہ دنیا کا سب سے بڑا اسلامی مائیکرو فنانس کا ادارہ ہے۔ اس ادارے کا مقصد یہ ہے کہ ضرورت مندوں میں سود سے پاک قرضے فراہم کئے جائیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب مصنف، سابق سول سرونٹ، مزاج کے سخی اور ترقیاتی شعبے میں مہارت رکھنے کے ساتھ انسان دوست شخصیت کے حامل ہیں۔
اخوت کے سفر کا اصل آغاز دراصل 1400 سال قبل حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے مہاجرین اور انصار مدینہ کے درمیان بھائی چارہ کا تعلق قائم کرنے سے ہوا۔ وہ بتاتے ہیں کہ سال 2001 میں ہم نے اپنے دوستوں کو اخوت کا آئیڈیا پیش کیا۔ ہم نے یہ آئیڈیا حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات سے اخذ کیا جس کے مطابق غربت ختم کرنے کا سب سے بہترین راستہ عطیات سے نہیں بلکہ قربانی اور ایثار سے آتا ہے۔ حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ دیا ہے کہ دولت مند شخص کو غریب انسان کے ساتھ بھائی چارے کے تعلق میں بندھنا چاہیے، اور پھر اس تعلق کے ذریعے اس کی مدد کرنی چاہیے۔ بجائے اس کے کہ اسے کچھ بھیک کی شکل میں خیرات دے۔ یہ ایک بظاہر سادہ سا تصور ہے اور اخوات اس تصور پر کام کرتے ہوئے غربت سے پاک معاشرے کی تعمیر میں سہولت فراہم کرتی ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے میڈیکل گریجویٹ ہیں۔ 1987 سے 1995 تک حکومت پنجاب میں ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ میں سینئر پوزیشنز پر فرائض سرانجام دیے۔ 1995 میں وہ اعلیٰ تعلیم کےلیے امریکہ گئے اور پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا۔ وہ وطن واپس آئے اور بیوروکریسی میں اعلیٰ سطح کی پوزیشنز پر خدمات فراہم کرتے رہے۔ سال 2003 میں وہ پنجاب رورل سپورٹ پروگرام کے جنرل منیجر کی پوزیشن سے مستعفی ہوگئے اور سماجی خدمات کی فراہمی اور غربت سے پاک معاشرے کی تعمیر کےلیے اپنے آپ کو مکمل طور پر اخوت کے ساتھ وابستہ کرلیا۔
گرامین بینک اسی طرح کا ایک ادارہ ہے جو دنیا میں منظرعام پر آچکا ہے اور غریبوں کا بینک قرار پانے کی وجہ سے اسے دنیا کا سب سے بڑا نوبل انعام بھی مل گیا ہے۔ اس بینک کو پروفیسر محمد یونس نے قائم کیا۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں اعتراف کیا جاتا ہے کہ یہ بینک تخفیف غربت کے نظام میں بڑی تبدیلی لے کر آیا ہے۔ لیکن کچھ دیر کےلیے توقف کریں اور گرامین کا اخوت کے ساتھ موازنہ کریں۔ صرف تصوراتی طور پر نہیں، بلکہ ٹھوس حقائق کی بنیاد پر جائزہ لیں۔
سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ نوبل انعام یافتہ گرامین بینک کے تصور میں غریب کو قرضے کے ساتھ سود بھی ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ اخوت کے تصور میں غریب کو سود کے بجائے اصل رقم واپس کرنی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب بتاتے ہیں کہ ایک غیر ملکی دورے میں ان کی پروفیسر محمد یونس سے ملاقات ہوئی جس میں پروفیسر محمد یونس نے حیرانی کے ساتھ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب سے استفسار کیا کہ اگرچہ گرامین بینک معمولی سود وصول کررہا ہے، لیکن اخوت کس طرح سے لاکھوں لوگوں کو مکمل طور پر غیر سودی قرضے فراہم کرنے کا انتظام کرتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی سود کے بغیر اربوں کے قرضے فراہم نہیں کیے گئے۔
ڈاکٹر محمد امجد ثاقب فخریہ طور پر بتاتے ہیں؛ “اخوت سال 2001 سے اب تک 26 لاکھ گھرانوں کو قرض کی شکل میں 61 ارب روپے فراہم کرچکی ہے۔ اس کی ریکوری کی شرح 99.91 فیصد ہے۔ پاکستان بھر میں فی الوقت ہمارے برانچ نیٹ ورک میں 800 سے زائد یونٹس ہیں۔ ملک گیر سطح پر ہماری موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ قابل عمل آپریشنز اور گہرے اثرات کی بدولت ترقی کا ہمارا ماڈل انتہائی پائیدار ہے۔”
انہوں نے بتایا، “چھوٹے قرضوں کے ہمارے ماڈل کی ہارورڈ کینیڈی اسکول کے ماہرین نے بھی توثیق کی ہے، جبکہ مختلف فلاحی اداروں جیسے الخدمت فاؤنڈیشن، کاوش ٹرسٹ وغیرہ نے بھی اس ماڈل کو اختیار کیا ہے۔ میری دانست میں اسلامی مائیکرو فنانس واحد ایسا راستہ ہے جو سب سے آسان اور سب سے منفرد انداز سے غربت کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ اس کی بنیاد مواخات ہے، جس کا فلسفہ بانٹنا اور عملی طور پر ہمدردی کرنا ہے۔”
اگر عالمی رہنماؤں کی جانب سے گرامین اور اخوت کے درمیان موازنہ کرایا جائے تو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اخوت کو بھی نوبل انعام دیا جائے۔ دنیا میں بڑے قرضے دینے والے اخوت سے سبق سیکھیں، لیکن وہ ایسا کیوں کریں گے؟ ان کی دلچسپی ہے کہ مزید منافع اور پیسہ بنایا جائے، انسانی فلاح و بہبود میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کا خیال ہے کہ رحم دلی اور مساوات کے اصولوں کی بنیاد پر غربت سے پاک معاشرہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ غربت صرف محدود وسائل سے نہیں ہوتی، بلکہ یہ سماجی انصاف اور اخلاقیات کی محرومی سے در آتی ہے۔ غربت کی سب سے بدتر شکل مایوسی ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب اور اخوت کی ٹیم پسماندہ اور غربت سے دوچار طبقے کو سماجی دھارے میں لانے کےلیے کام کررہی ہے۔ اس ضمن میں سود سے پاک چھوٹے باسہولت قرضے، اچھی تعلیم کی مفت فراہمی اور رعایتی نرخوں پر صحت کی خدمات فراہم کی جارہی ہیں۔ پاکستان میں پسماندہ طبقے کو غربت سے نکالنے کےلیے سب سے بڑے ادارے پاکستان پاورٹی ایلی وئیشن فنڈ (PPAF) کے ساتھ بھی اخوت کام کررہا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب دنیا میں اس عظیم کام کےلیے جذبے اور اخلاص کی مثال قائم کررہے ہیں کہ کس طرح سے ایک شخص اپنے اخلاص سے بھرپور ارادوں کے ذریعے اسلامی اصولوں پر حقیقی طور پر چل کر دنیا کو بہتر بنا رہے ہیں۔
ماہ رمضان میں ہمارے ہاں بڑے پیمانے پر لوگ زکوٰۃ اور صدقات نکالتے ہیں، اس لیے ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھنے کے ساتھ لوگوں کو اخوت جیسے اداروں کے ساتھ تعاون کےلیے عملی اقدام اٹھانا چاہیے۔