ہم سب جانتے ہیں کہ جب رمضان آتا ہے تو شیطان جکڑ دیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ انوکھی یہ ہوئی کہ شیطان کے ساتھ عامر لیاقت حسین کو بھی جکڑ دیا گیا۔ جی ہاں یہ انوکھی بات ابھی کچھ دن قبل ہی ہوئی جب پاکستان میں شیطان کے نامزد جانشین عامر لیاقت حسین بول چینل پر رمضان ٹرانسمیشن کے دوران اپنے مذہبی جذبات کو مشتعل ہونے سے نہ روک پائے اور اسی اشتعال میں انہوں نے فرقہ وارانہ فساد کو ہوا دینے کی بلکہ فساد پر آندھی چلا دینے کی کوشش کی۔
کچھ عرصہ قبل جب عامر لیاقت حسین نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو انہی صفحات پر میں نے ایک بلاگ تحریر کیا تھا جس کا عنوان “فکس ” تھا۔ اس بلاگ میں عامر لیاقت حسین کی متضاد باتوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ان پر طنز کیا گیا تھا اور ان کو گٹر کے اوپر ڈھکن قرار دیا گیا تھا۔
جب کسی گٹر پر ڈھکن لگ جائے تو گٹر کی گندگی باہر آنے سے رک جاتی ہے اور عوام اس گند سے محفوظ رہتے ہیں جو کسی گٹر کے اندر ہو سکتا ہے۔ مگر جب ڈھکن خود ہی اچھل اچھل کر گند پھیلانے پر قدرت رکھتا ہو تو پھر کیا کہا جا سکتا ہے۔ ایسے میں تو پھر عالمگیر خان صاحب کی بھی ایک نہیں چلتی جو بے چارے کراچی کے گٹروں پر ڈھکن لگانے کی مہم فکس اٹ چلاتے رہے ہیں۔ اب عالمگیر خان صاحب کو فکس اٹ کے بجائے “ٹائٹ اٹ” کی مہم چلانی چاہیئے جس میں وہ ڈھکنوں کو ٹائٹ کرنے پر زور دیں۔
میں مگر یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں غلطی پر تھا اور جلد بازی میں عامر لیاقت حسین کو ڈھکن قرار دے دیا تھا جب کہ ان کی شخصیت اس سے کہیں بڑے القابات اور اعزازات کی مستحق ہے۔ محض ڈھکن کہہ دینے سے عامر لیاقت حسین کی گوں نا گوں صلاحیتوں کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔
یہ تو ٹھہرے ہوئے پانی کا ایک ایسا جوہڑ ہے جس میں چالیس سال سے کوئی تحرک پیدا نہیں ہوا۔ ایسے جوہڑ کے پاس سے گذرنا بھی محال ہو جاتا ہے۔ اس قدر شدید تعفن پھیلا ہوتا ہے کہ گذرنے والے کی سانسیں رکنے لگتی ہیں اور اگر ایسے جوہڑ کے پاس شومئی قسمت سے ٹھہرنا پڑ جائے تو گذرنے والا جاں سے بھی گذر سکتا ہے۔
یہ بغض و عناد کا وہ کوہ گراں ہے جسے دنیا کی کوئی نیکی، کوئی دلیل، کوئی شائستگی اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی۔ جو نیک فطرت اس سیاہ کوہ سے ٹکرایا اس کا مقدر پاش پاش ہونا ہی رہا۔ ایسے کوتاہ قامت مگر ڈھیٹ سیاہ کوہ نہ صرف دیکھنے میں بدنما دکھائی دیتے ہیں بلکہ اگر کبھی ان کے پتھر سے پتھر بجنے پر ان کے اندر سے آواز آنے لگے تو وہ بھی ایسی سماعت شکن ہوتی ہے کہ الامان و الحفیظ۔۔
یہ کلر زدہ وہ زمین ہے جو نہ صرف یہ کہ قابل کاشت نہیں رہتی بلکہ اپنے نیچے پائے جانے والے پانی کے ذخیرے کو بھی ناقابل استعمال بنا دیتی ہے۔ ایسی زمین پر تعمیر کیے جانے والے گھروں کی بنیادیں ہمیشہ کمزور رہتی ہیں اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ کمزور بنیادوں پر تعمیر کیے گئے مکانات کا مقدر بالآخر ڈھے جانا ہی ہوتا ہے۔
بے مثال منفی صفات اور صلاحیتوں کا حامل پاکستان میں شیطان کا نامزد جانشین اب پاکستان تحریک انصاف میں جلوہ گر ہے۔ پاکستان تحریک انصاف ویسے ہی اپنی اخلاقی اقدار سے دھیرے دھیرے ہاتھ دھوتی چلی جا رہی تھی۔ اس ناقابل فخر وجود کی شمولیت کے بعد تو گویا اس زوال کو چار چاند لگ چکے ہیں۔ اگر تو عمران خان کراچی میں عامر لیاقت حسین کی مدد سے تحریک انصاف کا نفوذ چاہتے ہیں تو پھر انہیں کراچی میں تحریک انصاف کے مستقبل پر فاتحہ پڑھتے ہوئے اپنا بوریا بستر لندن کے لیے باندھ لینا چاہیئے۔
جن نوجوانوں نے نہایت جوش اور خوشی سے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔ جو عمران خان کے سنگ تبدیلی کے خواب دیکھ رہے تھے۔ جو پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ وہ نوجوان اب تحریک انصاف سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف میں الیکٹ ایبلز کے نام پر جو ردی کا ڈھیر لگ رہا ہے اس کو آئندہ انتخابات کے بعد کسی ردی فروش نے ردی کے بھاؤ بھی نہیں خریدنا۔ اب بھی وقت ہے۔ رمضان کو غنیمت جانیں اور چھوٹے بڑے شیطانوں کی جکڑ بندی سے فائدہ اٹھائیں۔ اگر عمران خان اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کریں اور پارٹی ٹکٹ جاری کرتے وقت معیار کو مد نظر رکھیں تو شاید کچھ بہتری آ سکے ورنہ دوسری صورت میں کچھ عرصے کے بعد شیطان اور عامر لیاقت دونوں قید سے آزاد ہو جائیں گے اور پھر رہا سہا بیڑا بھی غرق ہو جائے گا۔