فریدا برے دا بھلا کر غصہ من نہ ہنڈاء
دیہی روگ نہ لگیے، پلے سب کجھ پائی
(فریدا، برے کا بھلا کر! تاکہ تمہارا دل غصے کے تصرف میں نہ چلا جائے، غصے کی نذر نہ ہو جائے۔ اگر تم جسم کو روگ نہیں لگانا چاہتے تو سب غصے والی چیزیں سمیٹ لو۔)
بابا فرید گنج شکرؒ کی یہ گوروبانی میٹھے لہجے میں سناتے ہوئے سردار چرن جیت سنگھ کی آنکھوں میں وہ چمک تھی جس میں دل جیت لینے کی خوشی ٹھاٹھیں مار رہی تھی۔ سکھ بزرگ کے لہجے کا تیقّن میرے دل کو محبت کے جذبے سے بھرتا جا رہا تھا اور میں محسوس کر رہا تھا کہ محبت و رواداری کا جو درس بابا فرید گنج شکرؒ نے اپنی صوفیانہ شاعری میں سمویا تھا، اس نے نہ صرف گرونانک دیو جی کے دل کو مسخر کیا بلکہ میرے سامنے بیٹھے سردار چرن جیت سنگھ ساگر کے دل کو بھی فتح کر چکا ہے۔ مذہبی شاعری کے الفاظ سماعتوں سے ہو کر ذہن کے بند دریچوں کو وا کرتے جا رہے تھے۔ گمان نہیں تھا کہ رواداری کے رنگ میں رنگا یہ سردار چرن جیت سنگھ ساگر آنے والے چند ماہ میں نامعلوم ہاتھ سے چلائی جانے والی گولی کا نشانہ بن کر راہئ ملکِ عدم بن جائے گا۔
سردار چرن جیت سنگھ سے ملاقات کےلیے جب میں اندرونِ پشاور کے تاریخی بازار قصہ خوانی سے ہوتا محلہ جوگن شاہ پہنچا تو گلی میں کھیلتے سکھ بچوں کے چہروں پر رونق دیدنی تھی۔ سردار چرن جیت سنگھ سے پہلی ملاقات ایسی تھی جیسے ہم سالہا سال سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں، اور ہماری دوستی بے تکلفی کی مضبوط ڈوری سے بندھی ہے۔ سردار صاحب نے گلہ کیا کہ تم نے اتنا انتظار کروایا آج… جس پر میرا جواب تھا: ’’ارے او ناراض حسینہ! پہلے پانی چائے تو پوچھ لو، گلے شکووں کو بعد میں دیکھ لیں گے۔‘‘
میری بوڑھے سردار کے ساتھ گوردوارہ بھائی جوگا سنگھ پشاور میں نشست کا مقصد بھی سکھ برادری کے مسائل کو سمجھنا اور ان کا حل تلاش کرنا تھا۔ پشاور آنے سے پہلے پشاور کے رہائشی خالصہ سرداروں کے بارے میں میری معلومات بہت سطحی سی تھیں۔ دہشت گرد گروہوں کی جانب سے ان کو دی جانے والی دھمکیوں، ٹارگٹ کلنگ کے کچھ واقعات اور آبائی گھروں سے بیدخلی جیسے ظالمانہ اقدامات کا سرسری سا علم تھا۔
سردار چرن جیت سنگھ نے بتانا شروع کیا کہ شہر میں پندرہ ہزار سے زائد سکھ آباد ہیں جن میں سے زیادہ تر سکھ محلہ جوگن شاہ اور اس کی ملحقہ گلیوں میں رہتے ہیں۔ پشاور شہر میں رہنے والے زیادہ تر سکھ بنیادی طور پر خیبر ایجنسی اور اورکزئی ایجنسی سے بغرض کاروبار آئے تھے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے، لیکن ان کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی۔ پشاور میں رہنے والے سکھ زیادہ تر زراعت، حکمت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور کچھ سکھ تجارت سے بھی منسلک ہیں۔ پنجابی سے نابلد یہ سردار ٹھیٹ پشتو بولتے ہیں اور ان کے رسم و رواج پر پشتون ثقافت اور قبائلی معاشرت کی نمایاں چھاپ نظر آتی ہے۔ ان کی خواتین اسی طرح سے پردہ کرتی ہیں جیسے دوسری پٹھان خواتین۔
ایک سردار کے لیے سنگھ کا لفظ نام کا بنیادی جزو ہے تو وہیں یہ پشاوری سکھ اپنے آپ کو آفریدی کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ پشتون ولی کی روایات نے 1947 میں تقسیم ہندوستان کے وقت ان سکھوں کو نقل مکانی سے روکے رکھا۔ مقامی آبادی نے سکھ برادری کی جان و مال کی حفاظت اپنے ذمے لے لی اور سکھ برادری کےلیے مذہبی آزادی کبھی مسئلہ نہ رہی تھی ۔ لال مسجد آپریشن کے بعد جب خیبر ایجنسی، وادی تیراہ اور اورکزئی ایجنسی میں حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو سکھ برادری بھی عدم تحفظ کا شکار ہوئی۔ دہشت گرد گروہ تحریک طالبان نے اورکزئی ایجنسی کی سکھ برادری کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں کہ اگر آپ کو اس علاقے میں رہنا ہے تو آپ مسلمان ہوجائیں یا پھر جزیہ دیں۔ جب سکھ کمیونٹی مذاکرات کےلیے گئی تو دہشت گرد گروہ نےمطالبہ دھمکی میں تبدیل کردیا کہ سکھ برادری 48 گھنٹے کے اندر اندر 5 کروڑ روپے جزیہ کی مد میں ادا کرے۔ تب تک کےلیے انہوں نے مغوی برائے تاوان کی مانند سردار کلیان سنگھ کو، جو مقامی سکھ لیڈر تھے، قید کرلیا۔
پاکستان بھر کی سکھ برادری نے ایک کروڑ روپے تاوان ادا کر کے سردار کلیان سنگھ کو رہا تو کروا لیا، لیکن تیراہ اور اورکزئی کا علاقہ ان کےلیے غیر محفوظ ہو گیا۔ سکھ برادری بے سروسامانی کے عالم میں اپنے آبائی گھروں کو چھوڑ کر پشاور کےلیے نکل کھڑی ہوئی۔ گوردوارہ بھائی جوگا سنگھ میں جب نقل مکانی کرنے والوں کےلیے جگہ ختم ہوگئی تو پشاور میں مقیم سکھ برادری نے اپنے گھروں میں مہاجرت کا شکار ان سکھ بھائیوں کو پناہ دینا شروع کردی۔ ایک سال کے عرصے میں خیبر ایجنسی اور اورکزئی سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد پندرہ ہزار تک پہنچ گئی تو گوردوارہ پنجا صاحب حسن ابدال اور ننکانہ صاحب کے قریبی محلوں میں پشاوری سکھوں نے آباد ہونا شروع کردیا۔
چرن سنگھ نے اس بارے میں مجھے مزید بتایا تھا:
’’دہشت گرد گروہ تحریک طالبان نے ہمارے سرکردہ افراد کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ گزشتہ پانچ برس میں صرف پشاور شہر کے گردونواح میں 10 سکھ شہید کیے گئے ہیں۔ یہ وہ حالات تھے جب ہمارے لیے بہت آسان تھا کہ جرمنی، امریکا یا کینیڈا کی شہریت کےلیے درخواست دیتے اور پاکستان چھوڑ کر چلے جاتے، لیکن پاکستان کی حیثیت ہمارے لیے وہی ہے جو ہمارے مسلمان بھائیوں کے لیے مکہ اور مدینہ کی۔ بابا گرونانک دیو کی جنم بھومی ننکانہ صاحب اور جائے وفات ضلع نارووال میں ہے۔ ہمارے آباء صدیوں سے اس علاقے میں رہتے آئے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ان حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے فرار کی راہ اختیار کریں۔ دہشت گردی کا نشانہ صرف ہماری برادری نہیں بنی، بلکہ اس کا شکار ہم سب پاکستانی ہوئے ہیں۔
گزشتہ برس جب بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے میرا نام لے کر بھارتی پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ سکھ مذہب کے پیروکاروں کو پاکستان میں مذہبی آزادی حاصل نہیں تو میرے لیے ناممکن تھا کہ میں اس منفی پروپیگنڈے کا جواب نہ دوں۔‘‘
ہم اللہ کو تو مانتے ہیں لیکن اللہ کی نہیں مانتے، مذہبی کتابیں عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات پر رہنمائی فراہم کرتی ہیں لیکن شدت پسند عناصر بنیادی انسانی حقوق کو غصب کرنے کے لئے تمام مذاہب کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ قتل وغارت گری کا بازار گرم کرنے کےلیے ان گروہوں نے مذہبی تعلیمات کی غلط اور من گھڑت تشریح کی۔ سکھ برادری اور دوسری اقلیتوں کو نشانہ بنانے سے دہشت گرد گروہ پاکستان کا نام دنیا بھر میں خراب کرنا چاہتے ہیں اور وہ دنیا بھر میں بابا گرونانک کی جنم بھومی کو اقلیتوں کےلئے غیر محفوظ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ مذہبی منافرت کے اس عمل کو روکنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اللہ کی مانیں۔ مذہبی احکامات کو رٹنے کی بجائے ان پر عمل کریں، اور جو گروہ شدت پسندی کو مذہب کا حصہ بنانے پر تلا ہو اس کو مذہب کی اصل روح کی طرف لے کر چلیں۔
مجھے بخوبی پتا ہے کہ میری اور میرے جیسے اور پاکستانیوں کی رواداری، امن اور مذہبی آہنگی کو فروغ دینے کی یہ کوششیں دہشت گرد گروہوں کے بیانیے کی نفی کرتی ہیں اور وہ اس وجہ سے مجھے نشانہ بھی بنا سکتے ہیں، میری جان بھی جا سکتی ہے، لیکن میں اس ملک کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔ یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنی جگہ پر رہتا ہوا دلوں کو جوڑنے اور بین المذاہب ہم آہنگی کی کوشش کروں۔ ہماری سکھ سنگت کی طرف سے پشاور شہر میں مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر بہت سے عملی اقدامات کیے گئے ہیں۔ مسلمانوں کے مذہبی تہواروں کو سکھ برادری بھی اسی جوش و جذبے سے مناتی ہے جیسے ہمارے مسلمان بھائی مناتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں سکھ کمیونٹی کی جانب سے مسلمان بھائیوں کے لیے افطار کا اہتمام بھی اسی سلسلے کہ ایک کڑی ہے کہ دہشت پسند طبقہ کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ ہم پاکستانی ایک ہیں، ہمارا جینا مرنا ایک ہے۔
بوڑھا سردار جب مستقبل کے اندیشوں اورسر پر منڈلاتے خطرات کا ذکر کر رہا تھا تب اُس کا لہجہ پر عزم تھا۔ اس نے اپنے عزم کا اظہار کچھ یوں کیا تھا: ’’ممکن ہے کہ مجھے پشاور کی انہیں گلیوں میں کہیں نشانہ بنا دیا جائے، لیکن میری آواز مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کے فروغ کے لئے بلند ہوتی رہے گی۔‘‘
آج بوڑھے سردار کے سر میں پیوست ہونے والی گولی نے اس کے جسم کو تو موت کے گھاٹ اتار دیا، لیکن سردار چرن جیت سنگھ کے گرم لہو نے محبت کے اس پیغام کو ہمیشہ ہمیش کےلیے جلا بخش دیا ہے۔