ڈی جی خان: زرتاج گل وزیر کا بنوں کے روایتی پشتون خاندان سے تعلق ہے۔ وہ قبائلی علاقے میں پیدا ہوئیں۔ انجینئر گل شیر خان ان کے والد ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد انگریز کے خلاف مذاحمت کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ان کے نانا ایوب خان ایک قبائلی جنگجو تھے۔ زرتاج گل نے ابتدائی تعلیم خیبر پختونخوا سے حاصل کی۔ اور اس کے بعد اعلی تعلیم کے لیے لاہور آ گئیں۔ انہوں نے کوئین میری کالج سے سیکنڈری تعلیم حاصل کی۔ اور اس کے بعد نیشنل کالج آف آرٹس میں داخلہ لیا۔وہ پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جس خاندان میں ان کے بہن بھائیوں سمیت بہت سے افراد نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ زرتاج گل نے1997ء میں زمانہ طالب علمی میں پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔ اور جلد ہی پاکستان تحریک انصاف میں متحرک کارکن کے طورپر جانی گئیں۔2005ء میں شوکت خانم کینسر ہسپتال سے منسلک ہو گئیں۔ انہوں نے ایک رضاکار کے طور پر اس ہسپتال میں خود کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔زرتاج گل کا نام 2013ء کے انتخابات اس وقت نمایاں ہوا جب وہ این اے 172(موجودہ این اے 191) سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی کی امیدوار تھیں۔ ان کے مقابلے میں ایک جانب مسلم لیگ(ن) کے امیدوار حافظ عبدالکریم تھے تو دوسری طرف سردار جمال لغاری نے الیکشن لڑا۔زرتاج گل کا حلقہ ڈیرہ غازی خان شہر، سخی سرور اور چوٹی زیریں کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ ان کی طویل وابستگی ہے اور عمران خان کے دھرنوں، احتجاجی مظاہروں اور کنونشنز میں بھی وہ بھرپور طریقے سے حصہ لیتی ہیں۔ان کے شوہر اخوند ہمایوں بھی سیاست میں فعال ہیں۔ اس مرتبہ بھی زرتاج گل قومی اسمبلی کی امیدوار ہیں اور انہیں یقین ہے کہ تبدیلی کے سفر میں عمران خان اور ان کی جماعت کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوگی۔جب میں نے سیاست شروع کی تو اس علاقے کے لوگوں کاخیال تھا کہ میں مایوس ہو کر اور حوصلہ ہار کر سیاست چھوڑ دوں گی۔ “زرتاج گل” زرتاج گل نے کہا کہ ڈیرہ غازی خان جیسے شہر میں جو پسماندہ بھی ہے اور جہاں سرداری نظام بہت مضبوط بنیادوں پر قائم ہے کسی خاتون کا الیکشن میں آنا اور مخصوص نشست کی بجائے عام نشست پر الیکشن لڑنا کوئی معمولی بات نہیں۔’میری پارٹی نے مجھے حوصلہ دیا ہے۔ مجھ پر اعتماد کیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ میں اس اعتماد پر پورا اتری۔’انہوں نے کہا کہ اس شہر میں تو کسی خاتون کا کسی تعلیمی ادارے، ہسپتال یا بازار میں جانا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں الیکشن میں آنا تو ایک خواب ہی لگتا ہے۔’جب میں نے سیاست شروع کی تو اس علاقے کے لوگوں کاخیال تھا کہ میں مایوس ہو کر اور حوصلہ ہار کر سیاست چھوڑ دوں گی۔ لیکن جب میں پچھلی مرتبہ قومی اسمبلی کی امیدوار بنی تو نہ صرف یہ کہ لوگوں کا اعتماد بڑھا بلکہ انہوں نے ڈیرہ غازی خان کی بیٹی کو حوصلہ دیا۔’اس روایتی شہر میں بہت سی خوبصورتیاں ہیں۔ ایک طرف اگر عورت پر پابندیاں ہیں تو دوسری جانب عورت کا احترام بھی بہت ہے۔ ‘مجھے اس شہر میں بہت سی عزت بھی ملی اور احترام بھی۔’انہوں نے کہا کہ سردار ذوالفقار کھوسہ کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے ڈیرہ غازی خان میں ہمیں نیا حوصلہ اور ہمت ملی ہے۔ وہ ایک سینئر سیاست دان ہیں۔ سیاست کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ان کی آمد سے ڈیرہ غازی خان میں پی ٹی آئی کو نئی توانائی ملے گی۔ہم برسراقتدار آ کر خواتین کے حقوق اور معاشرے میں ان کی عزت و احترام کے لیے قانون سازی کریں گے۔ “زرتاج گل”زرتاج گل اخوند نے کہا کہ سیاسی سفر میں مجھے اپنے خاوند کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ وہ پچھلے الیکشن میں میرے ساتھ صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 244سے پی ٹی آئی کے امیدوار تھے۔ ہم یہ الیکشن جیت چکے تھے لیکن جیسے پورے ملک میں پنکچر لگائے گئے اسی طرح ہمارے حلقوں میں بھی دھاندلی ہوئی۔اس مرتبہ ہم نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ میدان میں ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ عوام اس مرتبہ دھاندلی کا راستہ خود روک لیں گے۔ہم برسراقتدار آ کر خواتین کے حقوق اور معاشرے میں ان کی عزت و احترام کے لیے قانون سازی کریں گے۔ انہیں وہ حقوق بھی دیئے جائیں گے جن کے ماضی میں صرف وعدے کیے گئے۔انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی بھی ہوئی لیکن ان قوانین پر موثر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ قوانین پر عمل درآمد میں رکاوٹ ہیں۔انہوں نے کہاک ہ عمران خان کی قیادت میں نئے پاکستان کاخواب اب شرمندہ تعبیر ہونے والا ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ اس سفر میں طویل عرصے سے ان کے ساتھ ہوں۔ڈیرہ غازی خان میں روایتی سرداروں کے حلقے سے کسی عورت کا کامیاب ہونا غیر معمولی واقعہ ہوگا۔دیکھنا یہ ہے کہ ڈیرہ غازی خان کے روایتی قبائلی نظام میں زرتاج گل اخوند نئی تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں؟