ناگپور میں مسلم دشمن کٹر ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے مرکز میں 7 جون کو تین سالہ تربیت مکمل کرنے والے لاٹھی بردار کارکنوں کے کانوکیشن میں ہندوستان کے سابق صدر پرنب مکرجی کی مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت پر پورے ملک میں تہلکہ مچا ہوا ہے۔ تہلکہ اس بات پر مچا ہوا ہے کہ آر ایس ایس نے پرنب مکرجی کو اس تقریب میں شرکت اور خطاب کرنے کی دعوت کیوں دی جب کہ 2010 میں کانگریس کے سالانہ اجلاس میں یہی پرنب مکرجی تھے جنہوں نے وہ قرارداد پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ آر ایس ایس کے دہشت گردوں سے روابط ہیں اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس معاملہ کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرائی جائے۔ سوال کیا جا رہا ہے کہ آر ایس ایس کے اس اقدام کے پس پشت کیا مقصد کار فرما ہے؟
تہلکہ اس بات پر بھی مچا ہوا ہے کہ 83 سالہ پرنب مکرجی جو پچھلے پچاس برس سے کانگریس سے وابستہ رہے ہیں اور وزیرِ خزانہ، وزیرِ تجارت، وزیرِ خارجہ اور وزیرِ دفاع رہے ہیں، کانگریس کی سیاسی حریف آر ایس ایس کے گڑھ میں کھلم کھلا کیوں گئے؟ پرنب مکرجی کے اس اقدام کا جس پر کانگریس کے رہنمائوں کے علاوہ سیکولرازم کے حامیوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے، اصل مقصد کیا ہے؟
یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا آر ایس ایس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ اس کا کٹر سے کٹر نظریاتی دشمن اس کی سیاسی قوت کا معترف ہے، خاص طور پر ملک پر اس کی زیر سایہ بھارتیا جنتا پارٹی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد۔ اور کیا اس اقدام کا مقصد اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں بھارتیا جنتا پارٹی کے لئے فضا سازگار بنانا ہے۔
یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ سابق صدر کے اس اقدام کے پیچھے کیا اقتدار کی چاہت کار فرما ہے۔ اور کیا اگلے عام انتخابات میں پرنب مکرجی وزیرِاعظم کے عہدہ کے حصول کے لیے ساٹھ لاکھ کارکنوں سے لیس آر ایس ایس جیسی طاقت ور تنظیم کی مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
پرنب مکرجی، کانگریس کی حکومتوں میں وزیرِ خزانہ، وزیرِ تجارت، وزیرِ خارجہ اور وزیرِ دفاع کے عہدوں پر فائز رہے ہیں اور آخر کار صدر کے عہدہ پر متمکن رہے ہیں لیکن ان کی وزیرِاعظم بننے کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔
84ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد وہ وزارت اعظمیٰ کے دعوے دار تھے لیکن کانگریس کے اعلیٰ رہنمائوں نے فیصلہ راجیو گاندھی کے حق میں کیا۔ اس پر پرنب مکرجی اس قدر ناراض ہوئے کہ کانگریس چھوڑ کر انہوں نے ایک الگ جماعت راشٹریہ سماج وادی کانگریس کے نام سے قائم کی اور پھر ناکامی کی تاریکی سے گھبرا کر وہ دوبارہ کانگریس میں آگئے۔
راجیو گاندھی کے قتل کے بعد وہ پھروزارتِ عظمیٰ کے خواہاں تھے لیکن سونیا گاندھی نے ان کی جگہ من موہن سنگھ کو فوقیت دی۔ بہر حال سونیا گاندھی نے انہیں صدر کے عہدہ پر جتوا کر ان کی اشک شوئی کی۔
یہ خبریں عام ہیں کہ آر ایس ایس، وزیر اعظم نریندر مودی سے خوش نہیں ہے جو عوام کے”اچھے دن ” کا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس وقت فضا ان کے اس قدر خلاف ہے کہ اگلے عام انتخابات میں ان کی جیت کا بہت کم امکان ہے تو کیا آر ایس ایس پرنب مکرجی کو عوام کے لئے قابلِ قبول وزیر اعظم تصور کرتی ہے اور کیا ان کی قیادت میں نیا اتحاد قائم کرنا چاہتی ہے؟
بہر حال ان سوالات کی گتھیاں تو اس سال کے آخر تک سلجھ جائیں گی جب اگلے عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہوں گی۔
لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ آر ایس ایس نے اپنے پرانے کٹر دشمن پرنب مکرجی کو اپنے گیروے رنگ میں رنگ دیا ہے اور آر ایس ایس کے سرچالک موہن بھاگوت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس وقت ملک میں ہندوتا کی ایسی زبردست لہر چھائی ہوئی ہے کہ پرنب مکرجی بھی ہندوتا کے ہم نوا بن گئے ہیں۔ کانگریس کے رہنمائوں اور سنجیدہ سیکولر عناصر کو آر ایس ایس کے گڑھ میں اس اجتماع میں پرنب مکرجی سے توقع تھی کہ وہ آر ایس ایس کی مذہبی جنونیت کو للکاریں گے یا کم از کم اس پر ناخوشی کا اظہار کریں گے اور اس کے ہندوستان کے مستقبل کے لئے خطرات سے خبردار کریں گے۔ لیکن ان توقعات کے برعکس پرنب مکرجی نے آر ایس ایس کے مرکز میں قدم رکھتے ہی سب سے پہلے آر ایس ایس کے بانی کیشو بلی رام ہیڈگیوار کو بھارت ماتا کا مہان سپوت قرار دے کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ پرنب مکر جی بخوبی واقف ہیں کہ مسلمانوں کے سخت دشمن ہیڈ گیوار نے مسلمانوں کو بے حد زہریلا سانپ قرار دیا تھا اور 1927میں ناگپور کی مسجد کے سامنے باجے تاشے کے ساتھ گنیش کا جلوس نکال کر مسلمانوں کے خلاف فسادات بھڑکائے تھے اور پھر ان کا اصرار تھا کہ یہ ہندو مسلم فسادات نہیں تھے بلکہ ہندوں پر مسلمانوں کا حملہ تھا۔
آر ایس ایس کی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے پرنب مکرجی کے خطاب کا موضوع، ہندوستان کے تناظر میں قوم، قوم پرستی اور حب الوطنی تھا۔ پرنب مکر جی نے ہندوستان کی پانچ ہزار سال کی تاریخ کا تفصیل سے ذکر کیا۔ انہوں نے ہندوستان میں بودھوں کے علم، ادب اور ثقافت کے مراکز کی تعریف کی جو سولہ صدی قب مسیح سے قائم تھے پھر انہوں نے بڑی تفصیل سے چندر گپت موریہ، اشوک اور گپتا دور کے گن گائے اور کہا کہ اس زمانے میں یورپ سے بہت پہلے ہندوستان نے قومی مملکت کا تصور دیا تھا اور حکومت کا ایسا نظام تھا جس کی غیر ممالک سے آنے والوں نے اپنے سفر ناموں میں تعریف کی ہے لیکن بارہویں صدی میں مغل دور کا ایسا سرسری ذکر کیا جیسے اس کا ہندوستان کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
انہوں نے مغلوں کے نظامِ حکومت، اعلیٰ شان عمارات کی تعمیر، باغات کے تحفوں آرٹ، موسیقی اور ثقافت کے ورثہ کا قطعاً کوئی ذکر نہیں کیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ آر ایس ایس کے رہنمائوں کو خوش کرنا چاہتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے آر ایس ایس کے موقف کے مطابق مغلوں کو مسلم حملہ آور قرار دیا۔ ہندوستان میں مغلوں کے دور کے آغاز کا ذکر کرتے ہوئے پرنب مکر جی نے کہا کہ دلی پر”مسلم حملہ آوروں” کے قبضہ کے بعد اگلے تین سو سال تک ہندوستان پر مسلمانوں کی حکمرانی رہی جس کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے ختم کر دیا۔ ہندوستان کے سابق صدر نے ہندوستان کی تاریخ کو جس طرح مسخ کر کے پیش کیا اور مغلوں کے دور کے ورثہ کو یکسر نظر انداز کیا اس سے ظاہر ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہندوتا کے فلسفہ سے ہم آہنگ قرار دینا چاہتے تھے۔ خطاب کے آخر میں انہوں نے آر ایس ایس کا نعرہ ”بندے ماترم” لگا کر آر ایس ایس کے ساتھ اپنی ہم نوائی پر مہر ثبت کر دی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ لوگ بہت جلد بھول جائیں گے کہ سابق صدر نے آر ایس ایس کے تقریب میں اپنے خطاب میں کیا کہا البتہ اس تقریب کی تصاویر ذہنوں پر نقش رہیں گی جن میں پرنب مکرجی اسٹیج پر آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کے ساتھ نہایت فخر اور طمانیت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس تنظیم کے سربراہ کے ساتھ جس کو چند سال پہلے وہ دہشت گر تنظیم قرار دیتے تھے۔ اور گیروے رنک کا پرچم لہراے ہوئے آر ایس ایس کے ڈنڈا بردار کارکنوں کی پریڈ دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں۔ پرنب مکرجی کی صاحب زادی شرمسٹھا مکرجی، کانگریس کی ترجمان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس والے ان ہی تصاویر کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کریں گے۔ شرمسٹھا مکر جی اپنے والد کے آر ایس ایس کے گڑھ کی تقریب کا دعوت نامہ قبو ل کرنے کے خلاف تھیں۔ پرنب مکر جی کے صاحبزادے ابھجیت مکر جی بھی جو کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ ہیں، اپنے والد کے اس اقدام سے خوش نہیں ہیں۔