ہماری معیشت اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے۔ اس دفعہ یہ یاد دہانی فِچ ریٹنگز کی جانب سے آئی ہے۔ یہ ایسا بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ادارہ ہے جس کی ذمہ داری بین الاقوامی سرمایہ کاروں اور بانڈ ہولڈرز کو اُس ملک کی معاشی صورتحال کے متعلق آگاہ کرنا ہے جس میں وہ سرمایہ کاری کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
فِچ ریٹنگز کی وارننگ ہے کہ نئی حکومت کے پاس اقتدار میں آنے کے بعد “اقدامات کے لیے محدود وقت” ہوگا کیوں کہ “2019 میں بیرونی قرضوں کی ذمہ داریاں تیزی سے بڑھیں گی۔”
کلینڈر کو ذہن میں رکھیں: اگر سب کچھ ٹھیک چلتا رہا تو 25 جولائی کو انتخابات کا مطلب ہے کہ حکومت (کابینہ کے ساتھ) بنتے بنتے تقریباً ستمبر تو ہو ہی جائے گا۔ اس بات کا امکان ہے کہ بیرونی کھاتوں کی تننزلی اس وقت تک اگر رک نہ گئی، تب بھی سست رفتار ضرور ہوجائے گی، چنانچہ ایک ماہ کے درآمدی بِل کی سنگین حد تک شاید ہم ایک اور ماہ تک نہ پہنچیں۔ مگر جنوری 2019 سے قرضوں کی ادائیگی کی مد میں زرِ مبادلہ کا ملک سے اخراج بڑھے گا، چنانچہ زرِ مبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے ہمارے پاس صرف ستمبر سے دسمبر تک کے اہم ماہ ہی ہوں گے۔
فِچ ریٹنگز کا کہنا ہے کہ: “ہم حکام سے امید کرتے ہیں کہ وہ انتخابات کے بعد مالیاتی ضروریات پورا کرنے کے لیے آپشنز پر غور کریں گے۔”
ترجمہ: انہیں اقتدار میں آتے ہی ڈالرز کی خریداری کے لیے جانا ہوگا۔ اس کا مطلب کئی چیزیں ہو سکتی ہیں۔ ملک کی نئی قیادت شاید چین سے ایک اور ارب ڈالر مانگے گی جیسے کہ بجٹ کے بعد سے اب تک چینی (نامعلوم شرائط پر) خسارہ پورا کرنے کے لیے اربوں ڈالر دے چکے ہیں۔
انہیں ملنے والے جواب پر منحصر ہے کہ ان کے اگلے آپشن کثیر الفریقی ادارے مثلاً عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک ہوں گے۔ مگر یہ دونوں ادارے اب صرف زرِ مبادلہ کے ذخائر بھرنے کے لیے قرضوں کی فراہمی سے کتراتے ہیں، اور وہ جو بھی وعدے کریں گے ان کی انتہائی اونچی سطح پر منظوری چاہیے ہوگی، جس کا مطلب ہے کہ تاخیر ہوگی۔
اس کے بعد وہ بانڈز جاری کرنے کے امکان پر غور کریں گے، یا پھر کرنسی کی تبدیلی کے ذریعے زرِ مبادلہ بڑھائیں گے جیسا کہ اسٹیٹ بینک نے 2013 کی گرمیوں میں کیا تھا۔ بانڈز کا اجراء کافی پیچیدہ ہوگا خٓص طور پر کیوں کہ فِچ کے مطابق پاکستان کی “بیرونی منڈیوں کے ذریعے مالیاتی ضروریات پوری کرنی قیمت حالیہ مہینوں میں بڑھ چکی ہے، جس میں حکومت کے نومبر 2017 میں جاری کیے گئے 10 سالہ یورو بانڈز کے منافع میں اجراء سے اب تک 200 [بیسز پوائنٹس] کا اضافہ ہے۔”
فچ کے مطابق “یہ قیمت بین الاقوامی مالیاتی سختیوں اور بڑھتے ہوئے زمینی سیاسی دباؤ کی وجہ سے مزید بڑھ سکتی ہے۔ جب 2019 سے قرضوں کی ادائیگی کے لیے بیرونی فنڈنگ کی ضرورت پڑے گی، تو معاشی کمزوریوں کی آزمائش ہوگی۔”
اگر انتخابات کے بعد پارٹی تبدیل ہوتی ہے، اور حالیہ سرویز سے معلوم ہوتا ہے کہ انتخابی میدان تمام تر محنت اور انتخابی مہم کے باوجود اب بھی سب کے لیے کھلا ہے، تو نئی پارٹی بلاشبہ اپنی کہانی اسی پہلی سطر کے ساتھ شروع کرے گی جس کا استعمال گزشتہ 40 سال سے حکومتیں کرتی رہی ہیں: “ہمیں تباہ حال معیشت ورثے میں ملی۔” اور ایسی پریشان کن کہانی کے ساتھ فنڈنگ کی درخواست کرنا بہت مشکل ہوگا کیوں کہ سرمایہ کار بلاشبہ معیشت کی تجدید و بحالی کا منصوبہ، اور سابقہ قابلِ بھروسہ کارکردگی کا ٹریک ریکارڈ دیکھنا چاہیں گے۔
فِچ کہتا ہے کہ یہی وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے “آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدہ زیادہ قابلِ عمل ہو سکتا ہے۔” مگر یہاں بھی ایک مسئلہ ہوگا۔
آئی ایم ایف کے پروگرامز کا معاشی ترقی پر ہمیشہ منفی اثر ہوتا ہے۔ ان کی ترجیح بالکل مختلف ہوتی ہے: یعنی معاشی استحکام۔ اس کے پاکستانی تناظر میں دو مطالب ہوتے ہیں: مالیاتی خسارہ نیچے لانا، اور زرِ مبادلہ کے ذخائر اوپر لانا۔
خسارہ دو اقدامات کے ذریعے نیچے لایا جاتا ہے — محصولات بڑھا کر اور اخراجات کم کر کے۔ مثلاً 2008 کے پروگرام میں سبسڈیز اور سرکاری اداروں کے نقصانات میں تیزی سے کمی لانا شامل تھا (حکومت اس میں جزوی طور پر ہی کامیاب ہو سکی۔) بجلی کے نرخوں میں ایک اولین شرط کے تحت 18 فیصد کا اضافہ کیا گیا جبکہ شرحِ سود میں بھی اضافی شرط کے تحت 2 فیصد کا اضافہ کیا گیا۔ ایندھن پر سبسڈیز اس سے کافی عرصہ پہلے ہی ختم کی جا چکی تھیں۔ ان تمام اقدامات، بشمول ترقیاتی اخراجات میں کمی کا مجموعی اثر وہ تھا جسے ماہرینِ معاشیات “طلب کا سکڑنا” کہتے ہیں، جو کہ عوام کے پاس کم پیسہ ہے، یا خرچ کرنے کی رضامندی کم ہے، کہنے کا ایک شوخ طریقہ ہے۔
اگر معاملات اس نہج تک پہنچ گئے، تو آئی ایم ایف کا پروگرام سی پیک پر عملدرآمد کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ اس کے بارے میں اس طرح سوچیں: وفاقی ترقیاتی پروگرام میں گزشتہ مالیاتی سال (جو جون 2018 میں ختم ہوا) میں 750 ارب روپے کے اخراجات میں سے 187.3 ارب روپے صرف سی پیک سے منسلک منصوبوں کے لیے رکھے گئے تھے، جس میں سے 119.2 ارب روپے حکومت کے اپنے وسائل تھے۔ اور یہ صرف مالی سال 2018 کے لیے ہے۔ حقیقت میں آنے والے سالوں کے اندر پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) سے ایک کھرب روپے اور صرف سی پیک کے پروجیکٹس پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ تو اگر بجٹ میں کمی کی تلوار ترقیاتی اخراجات پر گرے گی، تو اس تلوار کو اس انداز میں چلانا ہوگا کہ جس سے سی پیک سے متعلق اخراجات پر اثر نہ پڑے۔ اس کے لیے کافی مہارت کی ضرورت ہوگی۔
دوسری پیچیدگی معاشی نمو میں وہ مجموعی سست روی ہوگی، جو کہ آئی ایم ایف کے ہر پروگرام کی وجہ سے پیش آتی ہے۔ اب تک تو سی پیک پر اچھے وقتوں میں عملدرآمد ہوا ہے، جب معیشت ترقی کر رہی تھی۔ اس عرصے کے دوران آپشن صرف اس کے فوائد گننے تک محدود تھے۔ مگر جب منصوبوں کو تیزی سے گرتی ہوئی معاشی نمو اور سکڑتے ہوئے مالیاتی وسائل کے اندر رہتے ہوئے آگے بڑھانا ہو، تو جلد ہی آپ کے آپشن یہ ہوں گے کہ ان کی قیمتیں گنی جائیں، اور اس کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں۔ یہی حقیقی امتحان ہوگا۔
تیسری پیچیدگی کچھ زیادہ ذہنی ہوگی۔ آئی ایم ایف کے تمام پروگرامز کی شرط ہوتی ہے کہ ملک کے مالیاتی اور بیرونی کھاتوں کو قریبی جائزے کے لیے کھول دیا جائے۔ گزشتہ حکومت سی پیک کا حساب کتاب آئی ایم ایف کو دینے سے اس لیے بچ گئی، کیوں کہ جب تک یہ حساب کتاب میچور ہوا تھا، تب تک ملک آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکل چکا تھا۔ سی پیک منصوبوں کا مالیاتی اثر کیا ہے، اس کی حقیقی تصویر اس وقت سامنے ابھر کر آئے گی۔
مگر اس سب کی بنیاد میں یہ مفروضہ ہے کہ پاکستان حقیقتاً آئی ایم ایف کے پاس جائے گا۔ بھلے ہی یہ زیادہ سے زیادہ ممکن لگ رہا ہے، اور ماضی کا تجربہ بھی ہمیں بتاتا ہے کہ کسی نئی چیز، مثلاً چین کی جانب سے بیل آؤٹ پیکج پر رضامندی کے حقیقت کا روپ دھارنے کا امکان موجود ہے، مگر پھر بھی مکمل طور پر اس پر انحصار غلطی ہوگی۔