لاہور;کیسا الیکشن؟ کیسا متوقع وزیراعظم؟ یہ تو عجائبات کا ملک ہے‘ سیاسی معجزے ہی معجزے۔ ذرا ماضی قریب و بعید پر نگاہ ڈال کر دیکھ لیں۔ ملک کا بچہ بچہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا حمایتی مگر الیکشن میں کامیاب ہوئے‘ بدنام زمانہ ڈکٹیٹر ایوب خان‘ وقت بدلا‘ زمانے نے کروٹ لی
نامور کالم نگار ڈاکٹر زاہد حسین چغتائی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔ تو وہی ڈھاک کے تین پات۔ وطن عزیز میں کوئی ایک شخص بھی حمایتی نہیں اور صدر بن بیٹھے آغا یحیٰی خان۔ یہ گویا پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے کے مصداق تھا کہ ملک دولخت کر دیا مگر فیئر الیکشن بھی کرا دئیے۔ معجزہ اسی کو کہتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش میں رہ گئے اور عنان اقتدار مل گیا ادھر کی اکثریتی پیپلز پارٹی کو۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک سنبھالا‘ ازسرنو قوم استوار کی‘ بکھرے ہوئے ریزے اور تنکا تنکا اکٹھا کرنا کوئی آسان بات تھی‘ سو انہوں نے یہ کام بھی کیا۔ شب و روز وہ تھے کہ قوم مایوس ہو چکی تھی‘ اس حالت زار کو پوٹھوہار کے عظیم شاعر باقی صدیقی نے کچھ اس طرح آشکار کیا تھا
کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اس قوم کے لئے اللہ کی عنایت تھے‘ بہت بڑا لیڈر کہ ایشیاءجس کے گن گاتا تھا‘ پاکستانیوں کو تیسری دنیا کا خواب دکھانے والا یہ لیڈر ابھی ریزہ ریزہ اور تنکا تنکا چن کر آشیانہ بنا ہی رہا تھا کہ ضیاءالحق آ گئے
اور اسلام کے نام پر ہر کام کرنے لگے‘ قوم کو غیر طبعی اور غیر فطری راستوں پر لگا دیا۔ غیر جماعتی الیکشن‘ غیر جماعتی مجلس شوریٰ اور غیر جماعتی بلدیاتی ادارے۔ گویا قوم کی آنکھوں سے خواب چھین لئے گئے‘ روشنی زندگی سے روٹھ کر کوسوں دور جا بیٹھی۔ خوابوں کو جگانے والا کوئی نہ تھا‘ راستے مسدود ہو گئے‘ ایسے کہ پھر لوگ شاہراہوں کو چھوڑ کر پگڈنڈیوں پر چلنے لگے۔ اللہ کا بھی ایک نظام ہے‘ یہ ”مرد حق“ نظروں سے اوجھل ہوئے تو ان کے چہیتے غلام اسحاق خان صدر بن گئے‘ یوں کہ پورے ملک میں ایک فرد بھی ان کا حمایتی نہ تھا۔ ضیاءالحق کی موت اگرچہ اندوہناک اور روح فرسا تھی‘ لیکن یہ کچھ عرصہ مزید اقتدار میں رہتے تو جانے پاکستانی قوم گنگ قوت گویائی کے ساتھ سماعتوں سے بھی محروم ہو کر رہ جاتی۔ اس موقع پر احمد فراز یاد آ گئے۔ ضیاءالحق کی ناگہانی موت پر کسی اخبار نویس نے ان سے پوچھا‘ آپ کے ان سے بہت اختلافات تھے‘ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں‘ کیا کہیں گے آپ؟ اس پر احمد فراز نے برجستہ ایک شعر کے مصرعے میں ضم کا پہلو اجاگر کرتے ہوئے کہا ”ان“ کی جو موت ہے
وہ قوم کی حیات ہے۔ بعدازاں جو سیاسی دور شروع ہوا‘ وہ نامکمل اور ادھورا اس لئے تھا کہ اس میں ضیاءالحق کی باقیات موجود تھیں اور یہ گزشتہ دور آمریت کا ردعمل بھی تھا۔ پاکستانی مرخ کا قلم عاجز اور لرزہ خیز ہو جاتا ہے‘ جب وہ فطری سیاسی عمل کے خلاف ایوب خان اور ضیاءالحق کی آمریت پسندی کا بے لاگ احوال رقم کرنے لگتا ہے۔ یکے بعد دیگرے سیاسی عمل کی زینت بننے والے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کیا کرتیں‘ کہاں جاتیں کہ جب انہیں سابقہ آمریت کے ادوار کی باقیات کو بادل نخواستہ ساتھ لے کر چلنا ہی تھا۔ ضیاءالحق سے لے کر مشرف دور کے مابین دراصل سو فیصد جمہوری عمل نہیں تھا‘ یہ جمہوریت اور آمریت کے مابین آنکھ مچولی کا دور تھا‘ جو اب تک جاری و ساری ہے۔ پرویز مشرف بھی پورے ملک میں ایک حمایتی نہ ہونے کے باوجود صدر پاکستان بن بیٹھا۔ یہ آمر بھی سابقہ آمروں کے نقوش قدم سمیٹتا رہا۔ منظور نظر اور حاشیہ بردار اسمبلیاں یوں اختراع کیں کہ جمہوریت کے پاسدار ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اپنے اردگرد قانونی جادوگر اکٹھے کئے‘ دو پیرزادے تو اس کے ساتھ تھے ہی‘ جو ہر لحظہ اسے ”کامیابی“ کے پینترے بتاتے تھے۔
کچھ شاطر قانون دان بھی تھے جو اسے لے ڈوبے‘ ان میں نعیم بخاری اور احمد رضا قصوری زیادہ قابل ذکر ہیں۔ آمریت کے پروردہ ”شرفائ“ کا اسے پورا ادراک تھا۔ اسے معلوم تھا ایوب خان کو کتاب ”فرینڈ ناٹ ماسٹر“ قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر نے لکھ کر دی تھی‘ سو اس نے اپنی کتاب ہمایوں گوہر سے لکھوائی۔ کیا کیا پاپڑ بیلے اس آمر نے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے ہی اپنے حاشیہ بردار مکھن سے بال کی طرح نکال لئے۔قابل اجمیری نے کہا تھا ….
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اب گزرے وقت کی ایک جھلک یہ بھی دیکھ لیجئے کہ بیرون ملک بیٹھے ایک بے نام شخص شوکت عزیز کو پاکستان بلوا کر پرویز مشرف نے وزیراعظم بنا ڈالا۔ پورے ملک میں ایک ووٹ بھی اس کے لئے نہ تھا‘ بس اسے صرف ایک ووٹ پرویز مشرف کا ہی درکار تھا۔ اب میں یہاں اپنے کالم کا پہلا جملہ دھراں گا۔ کیسا الیکشن؟ کیسا متوقع وزیراعظم؟ یہ تو سیاسی عجائبات کا ملک ہے…. یقیناً اگلا وزیراعظم عمران خان ہے‘ فیصلہ ہو چکا‘ اقتدار کا پروانہ مل گیا‘ اس ملک میں اقتدار کے عجائبات میں سے ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ قبل از وقت فیصلے ہو جاتے ہیں۔
کسی میں ہے دم مارنے کی مجال؟ کون ہے جو اختلاف کرے؟ ان فیصلوں سے جو کہیں اور ہوتے ہیں؟ نواز شریف یہی کہتا ہے مگر دبے لفظوں میں۔ میں بھی اپنے قلم کو تلقین کر رہا ہوں کہ حد میں رہے۔ پورا سچ کہنا ہمارے نصیب میں ہی نہیں تو پھر مقدر سے کیا لڑنا؟ دل کی تسلی کے لئے ہم کہہ دیتے ہیں قفل لب قفل مقدر تو نہیں‘ یوں کہنے سے کیا ہوتا ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید کی طرح جرات رندانہ کہاں سے لائیں؟ اس کے لئے تو پھانسی کا پھندا خود گلے میں ڈالنا پڑتا ہے۔ چلو ناچار عمران خان سے ہی کہہ دیتے ہیں‘ شاید امید کی کوئی کرن پھوٹ پڑے۔ عمران آپکی شروعات اور نشونما بھی وہی ہے جو آمروں کے پروردوں کی روایت رہی ہے، آپ درپردہ اسی اختراعی قبیلے سے تعلق رکھتے ہو جو اپنی مرضی کی ڈھلی ڈھلائی قیادت فراہم کرتا ہے‘ مگر یاد رکھنا تم پاکستان کے بیٹے ہو‘ بوڑھے ہو مگر جوانوں میں قدم رنجہ ہو‘ کوئی کام ایسا نہ کرنا جس سے آنے والے وقتوں میں آمریت کی راہ ہموار ہو‘ آمروں کی باقیات سے بچ کر رہنا۔ تمہاری ”الیکٹیبلز“ کی اصطلاح ظاہر کرتی ہے‘ بچ نہیں سکو گے لیکن محتاط تو رہ پاگے؟ اگر نہیں تو پھر ہمارا اور خود تمہارا بھی اللہ حافظ ہے‘ ایسا ہوا تو میں خود ہواں‘ بادلوں‘ بارشوں اور خوشبوں سے کہوں گا کہ اپنی حد میں رہیں‘ چلنا ہے تو پوچھ کر چلیں‘ انہیں بتانے والے بتائیں گے‘ کب اور کس رفتار سے چلنا ہے؟ اوقات کار کیا ہوں گے؟ یہ سب باتیں بتانے کی ہیں‘ ورنہ بادل‘ ہوائیں‘ بارشیں اور خوشبوئیں خودسری سے چلنا شروع کر دیتی ہیں‘ جو آمروں اور ان کے پروردوں کی طبع نازک پر گراں گزرتی ہیں۔