لاہور ; انتخابی مہم میں قومی جماعتوں اور اسکی لیڈر شپ کی جانب سے ملک کو در پیش حقیقی اجاگر نہ کرنا بھی عوامی اور سیاسی سطح پر مایوسی کاعث بنا۔ عام ووٹر کو یقین تو ہے کہ 25 جولائی کے بعد ملک میں ایک نئی منتخب حکومت دجود میں آجائے گی۔
معروف تجزیہ کار سلمان غنی اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں۔۔۔۔ مگر انہیں یہ یقین نہیں کہ ان اکا طرز زندگی تبدیل اور ان کے مسائل بھی حل ہو نگے؟ جمہوریت اور جمہوری عملی کی بات کرنے والے اس جمود کی ضالت زار بھی تبدیل کر پائیں گے یا نہیں؟ کیا وجہ ہے قومی انتخآبات ہمیں بطور قوم متحد کرنے کے بجائے تقسیم کیوں کر رہے ہیں؟ انتخابات کے تنیجہ میں بننے والی حکومت میں یہ صلاحیت ہو گی کہ وہ ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا بھی کرے اور مسائل کا بوجھ بھی اٹھائے۔ ملکی ضرورت مضبوط حکومت ہے۔ مضبوط اپوزیشن نہیں۔ ملک اپنے قیام کے 70 سالوں بعد بھی ویسے مسائل کا سامنا کر رہا ہے جس طرح ابتدا کے چند سالوں میں سامنا تھا۔ کو تلخی 1954 میں ٹرایئکا نے بود یاتھا۔آج وہ اختلافات اور سول ملٹری تنازع کی شکل میں تناو درخت بن چکا ہے۔ یہ صورتحال بتا رہی ہے کہ سیاسی جماعیتں خصوصاً تحریک انصاف، (ن) لیگ پیپلز پارٹی نے کوئی خاص ہوم ورک اور ابتخابی تیاری نہیں کی۔ کسی دوسرے فریق کی خامی اور الزامات کی شکل میں کسی ای فریق کا ہتھیار بنی ہوئی ہے۔ یہ صورتحال پہلے غیر متوازن سول ملٹری تنازع کا مزید تلخ بنا رہی ہے اور نتیجہ
کے طور پر ملک کے ادارے اس الزام تراشی کے موحول میں عوام کے سامنے ہیں۔ (ن) لیگ کو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اسٹبلشمنٹ سے ان کی لڑائی کی وجہ سے ہے۔چونکہ ووٹ کی اصل عزت تو گورننس کی طاقت میں چھپی ہے۔ جب آپ اچھی حکومت کے زریعے عوام کے طرز زندگی بدل دیتے ہیں۔ وہ بھی ان جماعتوں کی لڑائی میں اپنے لئے بہتری تلاش کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کا المیہ ہے یہی ہے کہ ان کے ہاتھ میں ان کا منشور اور قوم کے سامنے ان کی کارکردگی ہے۔یہ ساری صورتحال مزید مایوس کن نقشہ پیش کر رہی ہے کہ ان انتخابات کے بعد آنے والا مینڈیٹ قوم کو جوڑنے کے بجائے مزید تقسیم کرے گا۔جب سیاسی جماعیتں نفرت اور عدم برداشت کو اس سطح پر لے جائیں گی آزادانہ سانس لینا اور اختلاف کرنا ناقابل برداشت ہو جائے رو پھر کوئی مثبت تبدیلی نہیں آتی۔سیاسی عمل ہمیشہ برداشت اور اختلاف رائے کا احترام سکھاتا ہے مگرہمارے معاشرے میں عدم برداشت اس کی پہچان بن رہی ہے۔