لاہور؛ پانچ سال بعد پھر لاہور میں پورا ایک ہفتہ گزرا ۔ کل کی بات لگتی ہے جب دو ہزار تیرہ میں الیکشن ہورہے تھے۔ اس وقت بھی نئی امیدیں اور نئے خواب تھے۔ عمران خان اور نواز شریف آمنے سامنے تھے‘ جبکہ اس وقت کرپشن پیپلز پارٹی کو کھا گئی تھی ۔
معروف کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔ پانچ سال میں ہی دنیا بدل گئی‘ وہی نواز شریف جو پانچ سال پہلے وزیراعظم بنے‘وہ اس وقت جیل میں پڑے ہیں‘ جبکہ میدان میں شہباز شریف اور عمران خان ہیں۔فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں بیٹھے عامر متین ‘ محمد مالک اور میرے درمیان بحث ہورہی تھی کہ عمران خان کو کس نے جتوایا؟ کیا فوج نے جتوایا ہے‘ خفیہ ایجنسیوں نے رول پلے کیا ہے؟ کیا دھاندلی کر کے عمران خان جیتا ہے؟ میں نے کہا : میرے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ عمران خان کو کس نے جتوایا ہے ۔عامر متین اور محمد مالک کا اگر سیاست کو کور کرنے کا تجربہ اکٹھا کیا جائے تو تقریباً ساٹھ سال بنتا ہے۔ دونوں کی سیاست پر گہری نظر ہے‘ اگرچہ ہم سب شاہین صہبائی کی تحریوں کو بہت مس کرتے ہیں ۔ پارلیمنٹ سے جو سیاسی ڈائریاں لکھی جاتی تھیں‘ ان میں شاہین صہبائی‘ عامر متین‘ محمد مالک ‘ نصرت جاوید اور ایم ضیاء الدین وہ بڑے نام تھے جنہیں ہم سب شوق سے پڑھتے تھے۔ان سب کی امیدیں تھیں‘ کچھ خواب تھے‘ سب جنرل ضیاء کے مارشل لا کو بھگت کر نکلے تھے‘ لہٰذا جمہوریت کی اہمیت کا سب کو اندازہ تھا ۔
بینظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے کے بعد جو ہر طرف ایک امید تھی وہ مجھے آج تک یاد ہے‘ لگتا تھا پاکستان طویل جیل سے آج آزاد ہوا ہے‘ لیکن بہت جلد شاہین صہبائی اور دیگر صحافیوں نے سکینڈل بریک کرنے شروع کیے تو پتہ چلا کہ پاکستان جیسے ملکوں میں صرف سربراہ بدلتے ہیں‘ کرپٹ ذہنیت کہیں نہیں جاتی۔ وہ عوام کو بھول کر اپنی سات نسلوں کی قسمت بدلنے میں لگ جاتے ہیں۔ یہی کچھ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے ساتھ ہوا ۔ زرداری سے شادی نے بینظیر بھٹو جیسی روشن خیال اور پڑھی لکھی خاتون کو‘ جو مصیبتوں سے گزر کر وزیراعظم بنی تھیں‘ پاور کے نام پر کرپٹ بنا دیا ۔ زرداری کی جو کہانیاں پہلے دور میں کچھ چھپی رہ گئی تھیں وہ دوسرے دور میں کھل کر سامنے آگئیں اور انہیں’ مسٹر ٹین پرسنٹ ‘ کا خطاب دیا گیا‘ جس کو انہوں نے اپنے لیے ایک اعزاز سمجھا اور ٹرافی بنا کر سینے پر سجائے پھرتے ہیں ۔آج بھی جب میں اس دور کے صحافیوں سے بات کرتا ہوں تو ان کے دل میں تاحال بینظیر بھٹو کے لیے نرم گوشہ ہے۔ وہ بینظیر بھٹو کو شک کا فائدہ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور سارا بوجھ زرداری پر ڈال دیتے ہیں
‘ لیکن وہ یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ وزیراعظم کی ذمہ داری کیا صرف اپنا خاوند تھا اور وہ مشرقی بیوی کی طرح ہر بات ماننے پر مجبور تھیں؟ انہوں نے زرداری سے کیوں نہ پوچھا کہ ان کے پاس وہ چھ ارب روپے کہاں سے آئے جو سوئس بینکوں میں رکھے ہوئے تھے۔وہ صرف اس لیے چپ رہیں کہ وہ ان کے بچوں کا باپ تھا ؟ تو کیا بچوں کے باپ کو یہ آزادی ہونی چاہیے کہ وہ ملک کے دوسرے بچوں کا سارا پیسہ کھا کر اپنے بچوں کی فلاح سوچتا رہے؟ پھر سوچتا ہوں سارا بوجھ صرف زرداری پر ہی کیوں‘ بینظیر کے دستخطوں سے ہی وہ احکامات تیار ہورہے تھے جن کو استعمال کر کے اربوں روپے اکٹھے ہوئے اور سوئس بینکوں میں ٹرانسفر ہوئے۔ وہ تو خود نیکلس لینے پر کیس بھگتتی رہیں ۔ سرے محل کا بینظیر بھٹو کو پتہ نہ تھا؟ جس دن قومی اسمبلی میں نواز شریف نے سرے محل کا سکینڈل سنڈے ٹائمز کی خبر سے اٹھا کر بریک کیا تو اگلے دن کابینہ اجلاس میں شیرافگن واحد وزیر تھا جس نے بینظیر بھٹو سے پوچھا کہ وہ محل ان کا ہے؟ بینظیر بھٹو نے بڑے اعتماد سے جواب دیا تھا ہرگز نہیں‘ نواز شریف جھوٹ بولتے ہیں ۔
اورجب وہی سرے محل بینظیر بھٹو اور زرداری نے 45 لاکھ پونڈز کا بیچا تو شیر افگن کتنی دیر خاموش مجھے تکتا رہا۔ وہ بزرگ سیاستدان ان تمام برسوں میں خود کو یقین دلائے ہوئے تھا کہ بینظیر بھٹو نے ان سے جھوٹ نہیں بولا۔ بینظیر کی موت کے بعد زرداری اور گیلانی نے جس طرح بیوی‘ بچوں کو ملا کر حکومت چلائی وہ اپنی جگہ ایک ٹریجڈی ہے ۔ ہر دوست کو پیکیج ملا‘ کہ جتنا لوٹ سکتے ہو لوٹ لو۔ وہ انگریز بہادر یاد آگئے جنہوں نے ہندوستان فتح کرنے کے بعد اس پر طویل حکومت کرنے کا پلان بنایا تو وفاداریاں خریدنے کے لیے یہ فارمولا بنایا کہ شام تک جتنا گھوڑا دوڑا سکتے ہو دوڑا لو‘ وہ سب جاگیر تمہاری ہوگی ۔ زرداری نے بھی وہی ڈیل اپنے دوستوں کو دی کہ جتنے گھوڑے ان پانچ سالوں میں دوڑا سکتے ہو دوڑالو‘ اور دبئی اورلندن میں جائیدادیں خرید لو۔ ہر ایک کو ارب پتی بنا دیا ‘ سندھ کی حکومت اٹھا کر دبئی شفٹ کر دی‘سب ادارے برباد کر دیے‘ کراچی کو دنیا کا بدترین شہر بنا دیا کیونکہ وہاں سے ووٹ نہیں ملتے تھے‘ لیکن اندورنِ سندھ‘ جہاں سے ووٹ ملتے تھے وہاں بھی یہی حشر کیا ۔ سب کے ساتھ انصاف کیا ‘
اور مجال ہے کسی کو بخشا ہو۔ بینظیر بھٹوکے ردعمل میں نواز شریف کا عروج شروع ہوا ‘کہ پنجاب کا صنعت کار نوجوان ہے۔پیپلز پارٹی کو جاگیرداروں کی جماعت سمجھا گیا جو ملک کو پس ماندگی میں دھکیلنے کی ذمہ دار ہے‘اس کا حل یہ نکالا گیا کہ شہروں سے پڑھی لکھی مڈل کلاس اور صنعت کاروں کو اقتدار میں لایا جائے جو ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ یوں تاجروں اور مڈل کلاس کو ابھارا گیا۔ جو لوگ ان کو ابھار رہے تھے وہ بھول گئے کہ وہ سب تاجر ہیں‘ وہ سیاست کو بھی کاروبار کی طرح چلائیں گے‘ شام تک نقدی گننے بیٹھ جائیں گے۔ یوں نواز شریف نے جو صنعت کاروں کا ٹولہ اکٹھا کیا انہوں نے جاگیر داروں کی طرح شلوار قمیص‘ چمکتے کھسے اور کلف لگی پگوں کے برعکس کوٹ ٹائی کلچر کو فروغ دیا۔ روزانہ شیو کرنا اور اچھے کپڑے پہن کر میٖڈیا اور اسمبلی میں جانا شروع کیا تو سب کو لگا اب تقدیر بدلنے والی ہے۔ ملک کی تقدیر کیا بدلتی‘ پتہ چلا ہر کاروباری‘ ٹھیکے دار اور پراپرٹی ڈیلر نے سیاستدان بننے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ بینکوں سے اربوں کے قرضے‘ نیلی پیلی ٹیکسیاں‘ سب کچھ ان کاروباریوں میں بانٹ دیا گیا ۔
سیاست بھی کاروبار بن گئی‘جتنا گڑ اتنا میٹھا ‘ ٹکٹوں کی خرید و فروخت سے لے کر اربوں روپے کے پراجیکٹس تک ملنے لگے۔ سیاست کرنے کے لیے جیب میں پیسہ ہونا ضروری تھا ۔ ایک دن وہ بھی آیا کہ پنجاب اور سندھ کے ایم این ایز اور سینیٹرز نے اپنے اپنے علاقوں کے ترقیاتی فنڈز لکی مروت میں بیچنے شروع کر دیے۔ ایک کروڑ پر ٹھیکیدار نے بیس لاکھ روپے عطا فرمائے‘ اب سیاست میں پیسہ ہی پیسہ تھا۔ سب بھول گئے کہ انہیں اقتدار پاکستان اور عوام کی حالت بہتر کرنے کے لیے ملا تھا۔ نواز شریف خاندان جو ساری عمر یہ ماتم کرتا رہا کہ ذوالفقار علی بھٹو‘ بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف نے انہیں برباد کر دیا‘ ان کی اربوں روپوں کی جائیدادیں دنیا کے پانچ براعظموں میں نکل آئیں۔ واردات ملاحظہ فرمائیں جس دن نواز شریف ‘بینظیر بھٹو کے سرے محل کا سکینڈل قومی اسمبلی میں بریک کررہے تھے‘ اس سے دو سال پہلے وہ خود لندن میں خفیہ فلیٹس خرید چکے تھے۔یوں دھیرے دھیرے کرپشن کی کہانیاں سامنے آنا شروع ہوئیں تو لوگ دنگ رہ گئے۔ جب پاکستان کے دیگر کاروباریوں نے دیکھا کہ ہر طرف لوٹ مچی ہے تو انہوں نے بھی دبئی میں
دس ارب ڈالر کی جائیدادیں خرید لیں۔ جس کا جو دائو لگ رہا تھا وہ لگا رہا تھا ۔ کرپشن کوئی مسئلہ نہ رہی‘ جو وزیراعظم بنا وہ بیوی بچوں سمیت کرپشن میں لگ گیا ۔میں نے عامر متین اور محمد مالک سے کہا کہ عمران خان کو کسی نے نہیں جتوایا ‘ عمران کے سیاسی عروج اور اسے وزیراعظم بنانے کا کریڈٹ کسی اور کا بنتا ہی نہیں ‘ یہ کریڈٹ صرف اور صرف بینظیر بھٹو‘ نواز شریف‘ آصف زرداری‘ شہباز شریف اور یوسف رضا گیلانی کو جاتا ہے۔ آج اگر عمران خان وزیراعظم ہے تو وہ ان سب کی خاندان سمیت کرپشن‘ لوٹ مار اور نااہلی کی وجہ سے ہے۔اگر انہوں نے بھی پاکستان کے بچوں کو بلاول‘ حسین نواز‘ موسیٰ گیلانی اور حسن نواز کی طرح سمجھا ہوتا تو ایک عمران خان کیا ‘ دس بھی ہوتے وہ انہیں شکست نہ دے سکتے تھے‘ چاہے پوری فوج ‘ ایجنسیاں اس کے پیچھے کیوں نہ کھڑی ہوجاتیں! وہ جو عمران خان کے وزیراعظم بننے کا کریڈیٹ فوج یا ایجنسیوں کو دے رہے ہیں وہ دراصل بینظیر بھٹو‘ زرداری اور نواز شریف کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں۔ یہ ان سب کا مشترکہ کریڈٹ ہے کہ آج عمران خان وزیراعظم ہے! ۔