لاہور؛پاکستان کی تاریخ میں شوکت عزیز واحد وزیر خزانہ اور وزیراعظم تھے جو آئی ایم ایف کے طریقہ کار اور مقاصد سے واقف تھے ‘ شوکت عزیز نے ستر سال میں پہلی بار ان اداروں کو شکست بھی دی اور ان کی جڑیں ملک سے نکال کر باہر بھی پھینک دیں‘کیسے؟
نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔یہ ایک دلچسپ کہانی ہے‘ پاکستان کی معیشت 2000ءمیں مشکل ترین دور سے گزر رہی تھی‘ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے ملک پر پابندیاں تھیں‘ برآمدات بھی بہت کم تھیں چنانچہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا‘ جنرل پرویز مشرف نے قرضہ لے لیا‘ شوکت عزیز تیس سال سٹی بینک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے تھے‘ یہ نومبر 1999ءمیں وزیر خزانہ بنے‘ انہوں نے جنرل مشرف کو سمجھایا ہم جب تک آئی ایم ایف کے وینٹی لیٹر سے نہیں نکلیں گے ہم اس وقت تک اپنے پاﺅں پر کھڑے نہیں ہوں گے لیکن جنرل مشرف نہ مانے‘پاکستان نے دسمبر 2001ءمیں آئی ایم ایف سے ”غربت مٹاﺅ پروگرام“ کے تحت مزید ایک اعشاریہ تین بلین ڈالر قرض لے لیا‘ یہ قرضہ چار قسطوں میں تھا اور شرائط انتہائی سخت تھیں‘ہمیں ایک کے بعد دوسری قسط صرف اس صورت میں ملنی تھی جب ہم پہلی قسط کی شرائط پوری کر لیتے‘ اس قرضے کا مقصد پاکستان سے غربت مٹانا نہیں تھا‘ یہ روٹی فسادات جیسا منصوبہ تھا جس کے آخر میں پاکستان اپنے نیوکلیئر پروگرام سے دستبردار ہونے پر مجبور ہو جاتا لیکن پھر قدرت نے پاکستان کی مدد کی اور امریکا اور اسرائیل نائین الیون کی وجہ سے یہ منصوبہ جاری نہ رکھ سکے‘
پاکستان امریکا کا اتحادی بنا اور ہمیں ریلیف ملنا شروع ہو گیا‘ شوکت عزیز اگست 2004ءمیں وزیراعظم بنے‘ انہوں نے پیرس کلب پر کام کیا‘ 8 ملکوں نے ہمارے قرضے ری شیڈول کر دیئے‘ حکومت کی ایکسپورٹس بھی 8 بلین سے 18بلین ڈالر آگئیں‘ ٹیکسوں میں بھی اضافہ ہوا اور کچھ رقم امریکا کے ”کولیشن سپورٹ فنڈ“ سے بھی مل گئی اور یوں پاکستان آئی ایم ایف کے تمام قرضے ادا کرنے کے قابل ہو گیا‘ قرضے کی ادائیگی کا واقعہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے‘ وزیراعظم شوکت عزیز آئی ایم ایف کے عہدیداروں سے ملاقات کےلئے واشنگٹن گئے‘ آئی ایم ایف کی ٹیم کا خیال تھا یہ لوگ حسب عادت مزید قرضے مانگنے آئے ہیں چنانچہ ان کا رویہ بہت رف تھا‘ ڈائریکٹر بار بار کہہ رہا تھا آپ جب تک ہماری شرائط پوری نہیں کریں گے آپ کو اگلی قسط نہیں ملے گی‘ شوکت عزیز اطمینان سے یہ گفتگو سنتے رہے‘ ڈائریکٹر جب خاموش ہوا تو شوکت عزیز نے کہا ”ہم اگر شرائط پوری نہ کر سکے تو پھر“ ڈائریکٹر نے جواب دیا ”ہم آپ کی قسطیں روک لیں گے“ شوکت عزیز نے پوچھا ”اور ہم اگر پھر بھی شرائط پوری نہ کر سکے تو پھر“ ڈائریکٹر نے نخوت سے جواب دیا ”آپ کو پھر ہمارا سارا قرضہ واپس کرنا ہوگا“ شوکت عزیز نے ہنس کر جواب دیا ”
یہ کوئی بڑی بات نہیں‘ ہم ابھی آپ کا سارا قرض ادا کر دیتے ہیں“ ڈائریکٹر نے قہقہہ لگایا اور ہاتھ آگے بڑھا کر کہا ”تو پھر دے دیجئے“ شوکت عزیز نے جیب سے چیک نکالا اور چیک ڈائریکٹر کے ہاتھ میں دے دیا‘ میٹنگ روم میں سراسیمگی پھیل گئی‘ ڈائریکٹر کے ماتھے پر پسینہ آ گیا‘ وہ چیک واپس کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن وزیراعظم اپنی ٹیم کے ساتھ باہر آ گئے یوں پاکستان پہلی اور شاید آخری مرتبہ آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد ہو گیا۔شوکت عزیز پاکستانی ہیں‘ یہ 8سال وزیر خزانہ اورتین سال پاکستان کے وزیراعظم رہے ‘ یہ حقیقتاً معاشی جادوگر ہیں‘ آپ ان کے دور میں پاکستان کی معاشی حالت دیکھ لیجئے آپ ان کی صلاحیتوں پر حیران رہ جائیں گے‘ عمران خان اور اسد عمر اقتدار سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور ہو جائیں گے‘ اسد عمر ابھی سے بیل آﺅٹ پیکج کی تیاری کر رہے ہیں‘ میری ان سے درخواست ہے یہ آئی ایم ایف کے سامنے کشکول پھیلانے سے پہلے ایک بار شوکت عزیز‘ عمر ایوب اور سیکرٹری فنانس (ریٹائر) ڈاکٹر وقار مسعود سے مل لیں‘ یہ ان سے صرف یہ معلوم کر لیں پاکستان مشرف کے دور میں آئی ایم ایف کے چنگل سے کیسے نکلا تھا‘ میرا خیال ہے شوکت عزیز کا مشورہ پاکستان اور عمران خان دونوں کو بچا لے گا‘ یہ انوار السادات اور آصف علی زرداری بننے سے بچ جائیں گے‘ ملک ہماری ماں ہے اور ماں کےلئے شوکت عزیز کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں‘ یہ بھی پاکستانی ہیں اور یہ آج بھی پاکستان کےلئے غلط مشورہ نہیں دیں گے چنانچہ عمران خان کو اپنا دل ذرا سا بڑا کرنا چاہیے اور یہ آئی ایم ایف سے پہلے شوکت عزیز اور ان کی ٹیم سے مل لیں‘ ہو سکتا ہے پاکستان مصر جیسے روٹی فسادات سے بچ جائے ورنہ پاکستان کی معاشی حالت جس قدر خراب ہے مجھے لگتا ہے اس میں ”ہمارے ہیرو‘ ہمارا ناشتہ کہاں ہے“ کے نعرے لگتے زیادہ دیر نہیں لگے گی اور ہم چین اور امریکا کے درمیان پس کر رہ جائیں گے لہٰذا پلیز پلیز شوکت عزیز سے رابطہ کریں۔