22برس پہلے جب عمران خان سیاست میں آنے یا نہ آنے کے بارے میں شش و پنج کا شکار تھے، پاکستان میں معاشی اصلاحات کا ایجنڈا زیر بحث تھا اور آج دو دہائیوں بعد عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد وہی بحث وہیں سے شروع کی ہے جہاں وہ قریباً دو دہائیوں پہلے کھڑی تھی۔
اسحاق ڈار نواز شریف کے دوسرے دور میں وزیرخزانہ تھے اور راقم بزنس ریکارڈر نامی اخبار میں رپورٹر۔ ہر چوتھے دن اپنے دفتر بلا کر وزیرخزانہ اپنے ’اصلاحاتی ایجنڈے‘ کے زیر و بم سے آگاہ کرتے، اس کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے اور بتاتے کہ ان کا ’روڈ میپ‘ کیا ہے۔بات بینکنگ سیکٹر سے شروع ہوتی اور ٹیکس اصلاحات پر ختم ہوتی۔ ’صرف دو فیصد پاکستانی ٹیکس دیتے ہیں۔ بتائیں اس طرح ملک چل سکتے ہیں بھلا؟‘وزارت خزانہ نے ایک لمبی چوڑی مشق کے بعد نتیجہ نکالا کہ پاکستان کی بیشتر صنعتیں اور تمام بڑے کاشتکار ٹیکس نہیں دیتے۔ اس کے بعد ان دونوں شعبوں پر توجہ مرکوز کر کی گئی۔ فیکٹریوں کے دورے ہوئے، فہرستیں بنیں اور پھر مذاکرات کا مرحلہ شروع ہوا۔زرعی ٹیکس کے لیے زمینوں کی زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم حدود پر بحث شروع ہوئی، بڑے زمینداروں نے نئے کاغذ بنانا شروع کر دیے اور زرعی اراضی کا سروے شروع کیا گیا کہ کتنا ٹیکس اکٹھا کرنے کی گنجائش ہے۔حسب توقع صنعتکاروں نے ٹیکس بڑھانے اور نئے ٹیکسز دینے سے انکار کیا، زمینداروں کی فصلیں خراب پیداوار دینے لگیں۔ بات بڑھی تو صنتکار اور تاجر وزیراعظم تک جا پہنچے، انھیں اپنی سیاسی حمایت کا واسطہ دیا اور پھر فوجی بغاوت کے بعد نواز شریف کی حکومت ختم کر دی گئی۔لیکن یہ بحث چلتی رہی۔ جنرل پرویز مشرف نے تو اس بحث میں ایک نئی جان پھونک دی۔ انھوں نے ڈنڈا لہراتے ہوئے کہا
کہ جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے ان کے لیے اس ملک میں جگہ نہیں۔ایک بار پھر اصلاحات کا ایجنڈا تیار ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کو پتہ چلا کہ پاکستان میں 80 فیصد سے زائد کاروبار تو زبانی کلامی چلتا ہے۔ یعنی لین دین کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں۔ تو انھوں نے ’معیشت کی دستاویز بندی‘ کی مہم کا اعلان کیا۔اس مہم کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہر کاروبار اپنے آپ کو حکومت کے پاس رجسٹر کروا لے چاہے وہ ٹیکس دے یا نہ دے۔ وزیر خزانہ شوکت عزیز نے چاروں صوبوں میں گھوم پھر کر کاروباری اور تاجر طبقے سے ملاقاتیں کیں اور انھیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ ٹیکس نہیں مانگ رہے مگر صرف اتنا چاہ رہے ہیں کہ کاروبار کو ریکارڈ پر لے آئیں۔اب اگر اتنے بھولے ہوں تو کاروباری کاہے کے؟ تاجروں نے جنرل مشرف کے اس ’جھانسے‘ میں آنے سے انکار کر دیا اور وہ فارم سر عام نذر آتش کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جو حکومت نے انھیں اس حکم کے ساتھ بھیجے تھے کہ انہیں پر نہ کرنا قابل دست اندازی پولیس جرم ہو گا۔تاجروں اور کاروباریوں نے یہ جرم ڈنکے کی چوٹ پر کیا۔ انھوں نے نہ صرف ایف بی آر کے ساتھ رجسٹر ہونے سے انکار کیا بلکہ ملک بھر میں ہڑتال اور مظاہرے شروع کر دیے۔
حالات اتنے خراب ہوئے کہ جنرل پرویز مشرف نے ’معیشت کی دستاویز بندی‘ کا عمل معطل کر دیا جو آخری خبریں آنے تک زیرالتوا ہی ہے۔پیپز پارٹی نے بھی اصلاحاتی ایجنڈے پر بحث شروع کی لیکن یہ بحث وزاتِ خزانہ کی راہداریوں سے باہر ہی نہیں نکل سکی۔ نواز شریف کی تیسری حکومت میں ٹیکس کے نظام میں بہت نمایاں تبدیلی لائی گئیں۔ ٹیکس کی شرح کم کی گئی اس امید کے ساتھ کہ نئے ٹیکس دینے والے ٹیکس نیٹ میں شامل ہوں گے۔ ابھی تک تاہم عملاً ایسا نہیں ہو سکا۔جو کام دو دہائیوں یا شائد اس سے بھی زیادہ مدت میں نہیں ہو سکا، وہ اب کیوں کر ہو سکے گا؟ بہت سوں کو امید ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ عمران خان کی سیاسی مجبوریاں سابق حکمرانوں کی نسبت بہت کم ہیں۔نواز شریف نے جب صنعتکاروں پر ’ہاتھ ڈالا‘ تو اس شعبے میں موجود ان کی سیاسی لابی آڑے آ گئی۔ بتایا گیا کہ یہ لوگ پنجاب میں ن لیگ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ان سے ’پنگا‘ ٹھیک نہیں۔پرویز مشرف نے جب اصلاحاتی ایجنڈے پر کام شروع کیا تو ان کا بھی کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا لیکن پھر ق لیگ آ گئی۔ یوں سیاسی لوگ ملتے گئے اور مشرف کا سیاسی کارواں چل نکلا۔عمران خان کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ دوستیوں وغیرہ کی زیادہ پروا نہیں کرتے اور خاص طور پر سیاسی دوستیوں کی جب وہ ان کے ایجنڈے سے متصادم ہوں۔ سیاسی مجبوریاں بھی فی الحال ان کی کوئی زیادہ نہیں ہیں۔پھر ٹیکس نیٹ کو بڑھانا کوئی ایسی ناممکن بات بھی نہیں۔ 22 کروڑ کے ملک میں دس لاکھ لوگ بھی ٹیکس نہیں دیتے۔ ایسے میں اس تعداد کو 20 لاکھ تک یا پانچ فیصد تک کرنا کوئی ایسا غیرمعمولی یا ناممکن کام بھی نہیں۔وہ کہتے ہیں نا کہ پاکستان میں گورننس کے معاملات اتنے خراب ہیں کہ ان میں معمولی بہتری بھی بہت نمایاں فرق لا سکتی ہے اور عمران خان کو بس یہ معمولی سی بہتری لانی ہے۔ جو کچھ ایسی ناممکن بھی نہیں۔