لاہور (ویب ڈیسک) جس لمحے یہ تحریر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہو گی، پاکستان کا 22واں وزیراعظم حلف لے چکا ہو گا، عوام سے خطاب ہو چکا ہو گا اور فخر اور تبریک کی صدایئں بلند ہو چکی ہوں گی، تعریف کے ڈونگرے اور تنقید ہو رہی ہو گی، بھاگ لگے رہن ،سر سلامت رہن۔۔ کے نعرے ہوں گے،
نامور صحافی عاصمہ شیرازی اپنی ایک رپورٹ میں لکھتی ہیں ۔۔۔امید اور ناامیدی کے بیچ جنگ جاری ہو گی مگر مجھے اس سے کیا کہ 12 کروڑ عوام کے صوبے کا انتظام کسی ایسے بےضرر کو دے دیا گیا ہے جس کو یہ نہیں معلوم کہ صحافی کے سوال کا جواب کیسے دینا ہے۔مجھے اس سے کیا کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کے گھر بجلی آتی ہے یا نہیں۔ مجھے کیا کہ اس کے کچے صحن میں ویگو گاڑی کس کی ہے۔ مجھے اس سے کیا کہ اس پر قتل کا مقدمہ دیت سے چُھوٹا، مجھے اس سے کیا کہ اس بےضرر وزیراعلیٰ کے پیچھے اصل میں اقتدار کسی ترین یا کسی علیم کا ہو گا۔یقین کیجیے میرے لیے محض اتنا ہی کافی ہے وہ شخص ایک انتہائی عام آدمی، ایم اے ایل ایل بی ہے۔ جلنے والوں کا منہ کالا، محنت کر حسد نہ کر اور آگ لگے تیریاں مجوریاں نوں، میرے ملک میں جمہوریت کا فیضان عام ہےا وراسے چلنا چاہیے۔مجھے تو اس بات کا اطمینان ہے کہ وزیراعظم نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کسی پرچی کا سہارا نہیں لیا اور ملک کے تمام اہم مسائل پر سیرحاصل روشنی ڈالی۔ بلوچستان پر بھی ایک جملہ بولا کہ بلوچستان کے حالات بہت برے ہیں اور ناراض لوگوں کے ساتھ مل کر انھیں واپس لایا جائے گا۔
اس معاملے پر پہلے ہی کافی پیش رفت ہو چکی تھی اوراطلاعات ہیں کہ اس پر بہت جلد اچھی خبریں آئیں گی۔ ارباب اختیار ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں مگر یہ کام گذشتہ حکومت کے کھاتے میں نہیں جا سکا اور شاید جانے بھی نہیں دیا گیا۔بہت دنوں کے بعد قومی اسمبلی میں بلوچستان کی بات سنی، آواز سنی۔ پانچ ہزار لاپتہ بلوچوں کا ذکر ہوا۔ سردار اختر مینگل نے اپنے بھائی سمیت لاپتہ افراد کا نوحہ پڑھا۔ دل کو اطمینان ملا کہ کم از کم اس فلور پر کوئی ناراض بلوچوں کی بات کرنے والا تو ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد سیاسی مصلحتوں سے بالاتر بات سننے کو ملی۔ یہی اس ایوان کا فائدہ ہے یہاں غصے کو آواز ملتی ہے، غم کو انداز ملتا ہے۔یہی وہ ایوان ہے جہاں رؤف مینگل کبھی احساس محرومی کا ذکر کرتے کرتے ایک دن اپنی کرسی کو ٹھوکر مار کر نکل آئے۔ ثنا اللہ بلوچ ایوان بالا سےناامید رخصت ہوئے۔ حاصل بزنجو اقتدار کا حصہ ہونے کے باوجود بلوچستان کے مسائل پر مایوس رہے مگر آج اسی ایوان میں سردار اختر مینگل اور نواب اکبر بگٹی کے پوتے شاہ زین بگٹی بھی موجود ہیں۔ گزین مری وطن واپس آ چُکے ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ براہمداغ کے غم و غصے کو بھی ٹھنڈا کرنا ہو گا۔ خان آف قلات سے ادھورے مذاکرات کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانا ہو گا اور جناب وزیراعظم صاحب بلوچستان پر ایک جملے سے آ گے بہت کچھ کرنا ہو گا۔کسی بےضرر کو نہیں بااختیار کو اقتدار سونپنا ہو گا۔ آج آمروں کے ادوار سے ہٹ کر صحیح معنوں میں جمہوریت پسندوں کو آگے لانا ہو گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اسمبلی اور حکومت مشرف دور کی یاد دلا دے جب منتخب حکومتیں تو تھیں لیکن بےاختیار۔ ہمیں وہ دن بھی یاد ہیں جب مارچ 2005 کے لطیف موسم میں حکومت اور اپوزیشن ارکان کی 15 رکنی پارلیمانی کمیٹی نواب اکبر بگٹی سے مذاکرات کے لیے ڈیرہ بگٹی روانہ ہوئی۔ پھولوں کے موسم میں اسلام آباد سے محبت کا پیغام گیا۔مجھ سمیت چند میڈیا نمائندے بھی اس ٹیم کےساتھ گئے اور حالات کی سنگینی اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ نواب اکبر بگٹی سے انٹرویو بھی کیا۔ ان کا دو ٹوک پیغام تھا کہ اقدامات کرنا ان کا نہیں حکومت وقت کا کام ہے۔ پارلیمان کی کمیٹی کو بلوچوں سے مذاکرات کا کہا گیا تھا، مذاکرات کامیاب ہونے کو تھے، بگٹی صاحب بات کرنے کو آمادہ ہو چکے تھے اور پھر چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین سید کا طیارہ اڑا اور ابھی آدھے راستے کی پرواز نہ ہوئی تھی کہ طیارہ واپس بلوا لیا گیا۔ چوہدری شجاعت اور مشاہد حسین سید آج بھی گواہ ہیں کہ کون گفتگو پر آمادہ نہں تھا۔اور ہاں یاد آیا،جناب وزیراعظم، آپ نے سب کے احتساب کی بات کی ۔۔اس میں جنرل مشرف بھی شامل ہیں یا نہیں؟