نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔تو یہ کہہ دیا ہے کہ اس فیصلے کا مسلم لیگ (ن) کو فائدہ ہوگا، لیکن اُن کی بات کو حرف آخر بھی نہیں کہا جاسکتا۔ کسی کے خاموشی سے جیل چلے جانے پر سیاسی فائدے کی توقع نہیں کی جانی چاہئے۔نواز شریف نے اگرچہ اپنی فوری واپسی کا عندیہ دے دیا ہے، مگر وہ تو آتے ہی گرفتار ہو جائیں گے، پھر اُس کے بعد تو قانون فیصلہ کرے گا کہ وہ باہر کب آتے ہیں؟ یہاں یہ عالم ہے کہ مسلم لیگ (ن) وہ ٹیمپو بنانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے، جو نواز شریف چاہتے ہیں۔یہاں تو مسلم لیگ (ن) نے اس فیصلے کو روٹین کا ایک فیصلہ سمجھ کر قبول کرلیا ہے۔نواز شریف نے تو اپنی نااہلی کے فیصلے پر پورے ملک کو ہلا دیا تھا، جی ٹی روڈ کے راستے اُن کی واپسی نے سیاسی سطح پر ایک ایسی ہلچل مچا دی تھی، جس کی دھمک سے بہت کچھ لرز رہا تھا، مگر اب تو انہیں باقاعدہ سزا ہوگئی ہے اور انہیں اڈیالہ جیل جانا ہی جانا ہے، اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے گویا شرمندگی کا انداز اپنایا ہوا ہے۔کیا واقعی شہباز شریف کا بیانیہ نواز شریف کے بیانیے پر غالب آگیا ہے؟ کم از کم اتنا تو ہوسکتا تھا کہ لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے انتخابی امیدوار چند گھنٹوں کے لئے مال روڈ پر احتجاج کرتے، تاکہ یہ تاثر نہ جاتا کہ نواز شریف کو’’ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘‘ کے مصداق بھلا دیا گیا ہے۔
ایک سیاسی جماعت کا قائد اگر یہ کہتا ہے کہ میں نہ تو گھبرانے والا ہوں اورنہ جھکنے والا ہوں، تو اُس جماعت کے باقی رہنما کیوں گھبرا گئے ہیں، کیوں جھک گئے ہیں؟ عجیب بات ہے کہ آئے روز عدالت کے باہر گلے پھاڑ پھاڑ کر نواز شریف کے خلاف ہونے والی ناانصافی کا واویلا کرنے والے اب اتنے بڑے فیصلے کے بعد چپ سادھے بیٹھے ہیں، کیا انہیں احساس ہوگیا ہے کہ اب نواز شریف نے کبھی واپس نہیں آنا، اس لئے اپنی سیاست بچاؤ، یا وہ نہال ہاشمی، دانیال عزیز اور طلال چودھری کے ساتھ ہونے والی عدالتی کارروائیوں سے خوفزدہ ہوگئے ہیں۔ سب لوگ یہ توقع کررہے تھے کہ اگر نواز شریف کے خلاف فیصلہ آیا تو مسلم لیگ (ن) انتخابی مہم میں جارحانہ رویہ اپنائے گی۔ہر شخص کو علم ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا آج بھی ووٹ نواز شریف کا ہے، انہیں مائنس کرکے مسلم لیگ (ن) کیسے ووٹ حاصل کرسکتی ہے؟ ایسا تو ممکن نظر نہیں آتا کہ اُدھر نواز شریف ائرپورٹ پر اُتریں گے اور اُدھر انہیں قانونی ریلیف مل جائے گا۔اس میں تو معمول کا وقت بھی گنا جائے تو ہفتہ دس دن لگ جائیں گے، اتنا تو انتخابات سے پہلے وقت ہی نہیں رہ گیا کہ نواز شریف انتخابی مہم چلاسکیں۔ لامحالہ یہ کام تو مسلم لیگ (ن) کی باقی قیادت نے کرنا ہے، خاص طور پر شہباز شریف اگر مہم کو نواز شریف کے فیصلے سے نہیں جوڑتے اور ساری مہم اپنی کارکردگی کے قصے سناتے ہوئے چلاتے ہیں، تو پھر اُس فارمولے کو بھول جائیں، جس کی سزاکے فیصلے سے اُمید کی جارہی ہے۔
نواز شریف باربار یہ کہتے ہیں کہ میں جیل میں رہوں یا باہر، میں عوام کے ساتھ ہوں اور عوام میرے ساتھ ہیں۔یہ علامتی بات ہے، ظاہر ہے اس میں رنگ اُس وقت پیدا ہوگا، جب ان کی جماعت ایک سخت بیانیے کے ساتھ میدان میں اُترے گی۔نواز شریف تو آج بھی کہتے ہیں کہ انہیں سزا کرپشن پر نہیں دی گئی، بلکہ اس کا باعث وہ بیانیہ ہے، جس میں وہ ووٹ کی عزت چاہتے ہیں، جو ستر برسوں سے سول بالا دستی کو روندنے والے جرنیلوں کے خلاف ہے، لیکن مجھے تو کوئی بھی رہنما نواز شریف کے اس بیانیے کو استعمال کرتا دکھائی نہیں دے رہا، حتیٰ کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف بھی اس سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔اب سوال پھر وہی ہے کہ نواز شریف کی الیکشن مہم میں شرکت کے بغیر کیا مسلم لیگ (ن) کو اُن کے خلاف آنے والے فیصلے کا کوئی سیاسی فائدہ ہوسکتا ہے؟ میرا جواب تو نفی میں ہے، کیونکہ اب وہ حالات نہیں رہے کہ عوام اندھا دھند کسی ایسے شخص کی حمایت شروع کردیں، جس کے خلاف عدالتی فیصلہ آئے۔ اب سیاسی شعور بہت زیادہ ہے۔9ماہ سے زائد چلنے والے ایک کیس میں، جس کے لمحے لمحے کی روداد ٹی وی چینلوں کے ذریعے عوام تک پہنچتی رہی ہے، سزا ہونے سے نواز شریف کے بارے میں منفی تاثر بھی پیدا ہوا ہے کہ وہ اتنے مواقع ملنے کے باوجود اپنی صفائی میں کچھ پیش نہیں کرسکے،
اب صرف ایک بہادری کا عنصر ہی ایسا ترپ کا پتہ رہ گیا ہے جسے استعمال کرکے نواز شریف ایک بڑی ہلچل مچا سکتے ہیں۔وہ فوراً واپس آئیں اور ائرپورٹ پر گرفتار ہو کر جیل چلے جائیں۔ اس دوران اگر اُن کا ائر پورٹ پر مختصر سا خطاب بھی ہو جائے تو اُس کا ایک لاوڈ پیغام جائے گا، پھر اُن کی جماعت بھی تقویت پکڑے گی اور الیکشن مہم کے ساتھ ساتھ عوام کو جذباتی فضا میں لاکر سیاسی مہم بھی چلائی جاسکے گی۔مسلم لیگ (ن) کو اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہئے کہ اب وہ سیاسی طور پر تنہا کھڑی ہے، حتیٰ کہ وہ سیاسی جماعتیں بھی جو پچھلے دورِ حکومت میں اُس کی اتحادی تھیں، اب دور ہو چکی ہیں۔پھر سیاسی ماحول اگر انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہو، تو ہر ایک کو اپنی پڑی ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے لئے اتنا آسان نہیں کہ وہ نواز شریف کے بیانیے کو لے کر گلی محلے تک جائے۔ وہ یہ تو کہہ سکتی ہے کہ فیصلے میں ناانصافی ہوئی ہے، مگر یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کے پیچھے عدلیہ یا فوج کا ہاتھ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ لوگ اب اس بارے میں سننا بھی نہیں چاہتے۔ نہ ہی یہ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی بساط ہے کہ وہ اس بیانیے کے ساتھ عوام میں جائیں۔ پہلے ہی انہیں ختم نبوتؐ اور نواز شریف کی کرپشن کے حوالے سے ہر جگہ سوالات کا سامنا ہے۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں، جنہیں سامنے رکھ کر مسلم لیگی قیادت کو اگلے چند دنوں میں لائحہ عمل بنانا چاہئے۔سادہ سی بات ہے کہ اگر نواز شریف کی اس بات کو درست مان لیا جائے کہ انہوں نے سول بالا دستی کا جو موقف اختیار کیا ہے، اُس کی انہیں قیمت چکانا پڑ رہی ہے تو کیا ایسی قیمت چکانے کے لئے اُن کی جماعت بھی تیار ہے یا مصلحت کا شکار ہو کر اس راستے کو خیر باد کہہ چکی ہے؟۔۔۔ یہاںیہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ ،
جب نواز شریف اور مریم نواز پاکستان میں تھے اور ہر روز جلسے کررہے تھے، اُن جلسوں میں بھی صرف وہی موجود ہوتے، مسلم لیگی قیادت کہیں نظر نہ آتی، صرف بہاولپور کے ضمنی انتخاب میں کامیابی پر ہونے والے جلسے میں نواز شریف اور مریم کے ساتھ شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف بھی شریک ہوئے، وگرنہ ساری مہم باپ بیٹی نے ہی چلائے رکھی۔اب اگر یہ دونوں انتخابی مہم کے میدان میں نہیں ہوں گے تو مہم کا وہ ٹیمپو کیسے بنے گا۔ جلسوں میں کون کہے گا، نواز شریف کا ساتھ دوگے، کون ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے گا۔ کون خلائی مخلوق کی باتیں کرے گا؟ یہ سب کچھ تو ہرگز نہیں ہوگا، پھر مہم میں جوش کیسے پیدا ہوگا، رنگ کیسے جمے گا؟ عمران خان کو احتساب عدالت کے فیصلے سے جو اخلاقی فتح حاصل ہوئی ہے، اس کے ذریعے وہ اپنی انتخابی مہم کو مزید پُر جوش بنائے ہوئے ہیں، اُن کا وہ بیانیہ کہ شریف خاندان اربوں روپے لوٹ کر ملک سے باہر لے گیا ہے، اس فیصلے سے درست ثابت ہوا ہے، اُس کا توڑ کرنے کے لئے مسلم لیگ (ن) کے پاس صرف یہی ایک دلیل ہے کہ نواز شریف نے جمہوری بالادستی کے لئے جو بیانیہ اختیار کیا ہے، اُس کی وجہ سے انہیں عدالتوں کے ذریعے نشانہ بنایا جارہا ہے۔مگر کیا مسلم لیگ (ن) کی موجودہ قیادت یہ بیانیہ اختیار کرنے کو تیار ہے؟ نہیں ہرگز نہیں، کیونکہ شہباز شریف کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہیں ہے۔انہوں نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ آنے پر جو پریس کانفرنس کی وہ اس قدر بے جان تھی کہ اُس نے نواز شریف کی سزا کے ایشو کو ہی مردہ کردیا۔ فیصلے کو مسترد کرنے کا لفظ ایک سطحی بات تھی، کیوں مسترد کیا، یہ انہوں نے نہیں بتایا ،
انہوں نے تو کہا کہ نواز شریف کے ساتھ شدید ناانصافی ہوئی ہے، مگر نواز شریف کی لندن میں پریس کانفرنس کی طرح یہ نہیں کہا کہ انہیں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ اختیار کرنے پر جان بوجھ کر سزا دی گئی ہے۔ نواز شریف اپنے ہر جلسے میں عوام کو یہ پیغام دیتے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرائیں، تاکہ اُن کی نااہلی کے فیصلے کو پارلیمنٹ اٹھا کر باہر پھینکے۔وہ جانتے تھے کہ ایسا ممکن نہیں، لیکن اپنے حامیوں کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے وہ بات کہتے تھے۔ کیا شہباز شریف یا دیگر مسلم لیگی رہنما بھی ایسا کہیں گے؟ اکا دکا کے سوا شاید ہی کوئی اپنا یہ دعویٰ کرے۔سو اب یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ نواز شریف کو قانونی جنگ لڑنے کے لئے تو فوری واپس آنا چاہئے، تاہم سیاسی طور پر اُن کے آنے کا فائدہ تبھی ہوسکتا ہے، جب وہ انتخابی مہم میں شریک ہوں،پارٹی کے اجلاسوں میں مسلم لیگی رہنماؤں کو اپنے بیانیے کی تائید پر آمادہ کریں اور عوامی بالادستی کی جو بات کر رہے ہیں، وہ بالآخر حقیقت کا روپ دھارنے میں کامیاب ہو جائے گی، موجودہ حالات میں تو نہیں لگتا کہ واپس آنے پر نواز شریف کو اتنی آزادی مل سکے۔۔۔پھر کیا نواز شریف ایک گم گشتہ کردار بننے جارہے ہیں