لاہور : ایک بدتمیز پولیس افسر اور ایک صوفی منش درویش کے مابین جاری انا کی جنگ نیا رخ اختیار کر گئی ہے جس نے وفاقی حکومت کی ساری ساکھ داؤ پر لگادی ہے۔ نیاپاکستان یہ ہے کہ خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاورمانیکا کو ناکے پرروکنے کے جرم کے بعد
صف اول کے کالم نگار محمد اسلم خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ان کے ڈیرے پر جاکر ناکردہ گناہوں کی معافی نہ مانگنے پر ڈی پی او پاکپتن رضوان عمر گوندل کاتبادلہ کردیا گیاہے اور نہلے پر دہلا یہ کہ اب کہا جارہا ہے کہ ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے سے پنجاب حکومت کاکوئی تعلق نہیں۔جبکہ آئی جی پنجاب پولیس سید کلیم امام کاکہنا ہے کہ ڈی پی اوپاکپتن کو خاورمانیکا کے ساتھ جھگڑے پر نہیں بلکہ غلط بیانی کرنے پر تبدیل کیا گیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ خاورمانیکا کے ساتھ کیا ہوا اصل ماجرا کیاہے اس کاپس منظر جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ پی ٹی آئی نئے پاکستان کے نام پر تبدیلی کانعرہ لگاکر حکومت میں آئی ہے اورجناب عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے ہی خطاب میں پاکستان میں ریاست مدینہ کی جھلک دکھانے کادعویٰ اوروعدہ کیا تھا اورساتھ ہی ساتھ پنجاب میں خاص طور پر کے پی کے کی طرز پر پولیس سسٹم لانے کی نوید سنائی تھی لیکن ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کی پرپیچ کہانی ایوان اقتدار کی پراسرار راہداریوں کے راز عیاں کر رہی ہے۔ پاکپتن کے واقعہ کی اصل کہانی 5اگست2018 کی رات سے شروع ہوتی ہے مقامی سپیشل برانچ نے اطلاع دی کہ
ایک باپردہ خاتون اپنے ایک ساتھی مرد کے ہمراہ اوکاڑہ کی طرف سے پیدل پاکپتن کی طرف جارہے ہیں اور ایک گاڑی ان کے پیچھے پیچھے چل رہی ہے اور سپیشل برانچ کی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیاگیا کہ یہ باپردہ خاتون متوقع خاتون اول ہوسکتی ہیں جس کے بعد آر پی او ساہیوال اورکمشنر سمیت ضلعی انتظامیہ چوکس ہوگئی۔سب سے پہلے یہ کنفرم کرنے کی کوشش کی گئی کہ کیا یہ واقعی ہونے والی خاتون اول ہیں یا نہیں۔ یہ جاننے کے بعد انتظامیہ نے اس قافلے کے آگے اورپیچھے ایک ایک پولیس گاڑی لگادی تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے آپ کو یاد ہوگاکہ اس سے پہلے بھی بشری بی بی اورعمران خان صاحب کی پاکپتن میں بابافریدؒکے دربارپر حاضری کی ویڈیو سامنے آچکی تھی۔یہ دو رکنی قافلہ رات 8 سے 12 بجے تک مسلسل پیدل چلتارہا اس دوران پتہ چلا کہ با پردہ خاتون کے ساتھ چلنے والا نوجوان ابراہیم خاورمانیکا ہے جو بشریٰ بی بی کا بیٹا ہے۔12بجے کے قریب خاورمانیکا خود بھی وہاں پہنچ گئے اورانہوں نے پولیس والوں کو کہاکہ آپ ہماری نگرانی (monitoring) کررہے ہیں تو پولیس والوں نے کہا کہ نہیں ہم تو آپ کی حفاظت کررہے ہیں لیکن خاورمانیکااور ابراہیم خاور پولیس کیساتھ بحث وتکرار کرتے رہے دوسری طرف ضلعی انتظامیہ بھی اس ساری صورت حال کودیکھتی رہی۔
6اگست کی صبح ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کو اعلی حکام نے پیغام پہنچایاکہ گذشتہ رات پولیس اہلکاروں نے بہت بدتمیزی کی ہے آپ خاورمانیکا سے پولیس اہلکاروں کے ناروا رویے پر معذرت کرلیں۔پولیس کہانی کچھ یوں ہے کہ ڈی پی اوگوندل نے موقف اختیار کیا کہ میں یہاں کا ڈی پی او ہوں میں توموقع پر موجود بھی نہیں تھا اس لیے میراکسی کے گھر جاکر معافی مانگنا مناسب نہیں ہے۔ پھر یہ تجویز پیش کی گئی کہ آپ خاورمانیکا کو کسی تیسری جگہ پر جاکر مل لیں ڈی پی او نے کہاکہ میں ان کے صاحبزادے ابراہیم مانیکا کواپنے گھر چائے پر بلا لیتا ہوں اوران کو وضاحت کردیتاہوں کہ ہمارا مقصد آپ کی روحانیت میں کوئی خلل ڈالنا نہیں تھابلکہ ہمارے لوگ تو آپ کی حفاظت اوراپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے ڈی پی او نے ابراہیم کو پیغام بھجوایا کہ آپ میرے گھر پر چائے پر آئیں میں آپ کو کچھ وضاحت پیش کرنا چاہتاہوںجس پر ابراہیم مانیکا نے کہاکہ مجھے آپ کے گھر پر آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جس کے بعد تنائو کی صورت حال کھل کر سامنے آگئی۔23 اگست کی رات کوخاورمانیکا اپنی گاڑی میں پاکپتن جارہے تھے اوران کے ساتھ ان کے مسلح محافظ بھی تھے۔ پیٹرولنگ پرمامورایلیٹ فورس نے اسلحہ دیکھا تو
انہوں نے خاورمانیکا کی گاڑی کو ناکے پرروکنے کی کوشش کی نہ رکنے پر پولیس نے ان کا پیچھا کیااوران سے پوچھ گچھ کی توانہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ میں خاورمانیکا ہوں۔پولیس والوں نے کہا کہ آپ ناکے پر ہی بتادیتے توہمیں آپ کے پیچھے نہ آنا پڑتااورآپ کو بھی زحمت نہ ہوتی۔ اس پر خاورمانیکا نے پولیس والوں سے بہت بدتمیزی کی اس کے بعدانہوں نے فون پر ڈی پی او سے بھی بدتمیزی کی اس صورت حال کے بعد عید کے تیسرے روز ڈی پی او پاکپتن رضوان عمرگوندل اور آرپی او ساہیوال شارق کمال صدیقی کو وزیراعلی پنجاب کے دفترمیں حاضر ہونے کاحکم دیاگیا۔دونوں پولیس افسر وزیراعلی بزدار کے دفترپہنچے تووہاں پر ایک صاحب بیٹھے ہوئے جن کا تعارف نہیں کروایاگیاتھا کہ یہ کون صاحب ہیں ان صاحب نے ان پولیس افسروں سے تفتیش شروع کردی کہ خاورمانیکا خاندان سے آپ کو کیامسئلہ ہے۔ یہاں سے مسلم لیگ کے رہنما اور چودھری پرویز الہی کے مقابل سپیکر کے امیدوار چودھری اقبال گجر کا بڑا صاحبزادہ احسن جمیل اس پر پیچ ڈرامے میں داخل ہوتا ہے۔پولیس کہانی کے مطابق وہ نامعلوم صاحب’ احسن جمیل گجر تھے جو بڑے بدتمیزانہ انداز میں ان دونوں افسروں سے تفتیش کرتے رہے اس کے بعد ڈی پی او کو یہ بھی بتایا گیا کہ آپ کو ایک بار پہلے بھی ان کے گھر جاکرمعافی مانگنے کاکہاگیاتھا
لیکن آپ نے ایسانہیں کیا اب آپ لازمی جائیں۔رضوان عمر گوندل مبینہ طور پر آئوٹ سٹینڈنگ افسر ہیں انہوں نے ٹاپ کیا تھا جہاں جہاں بھی ان کی پوسٹنگ ہوئی اپنے فرائض انتہائی احسن طریقے سے سرانجام دیئے۔ رضوان عمر نے کہا جناب میں وردی میں ہوں میں غلطی پر ہوتا توضرور معافی مانگ لیتا۔نہ میں پہلی دفعہ موقع پر موجود تھا نہ دوسری دفعہ موجود تھا پولیس والوں نے اپنی ڈیوٹی کی ہے اس پر کہا گیا کہ اگر آپ خاورمانیکا کے ڈیرے پرمعافی مانگنے کے لیے نہیں جائیں گے تو آپ کے ساتھ براسلوک ہوسکتا ہے۔ اس پر ڈی پی او رضوان عمر نے کہا میں ایسا نہیں کرسکتا میں وہاں نہیں جائوں گا۔ جس کے بعد ڈی پی او پاکپتن کوانکوائری کیے بغیر ہی اوایس ڈی بنادیا گیا ہے۔پولیس کے ساتھ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ نوازشریف اورشہبازشریف کے دورمیں اس سے بھی برا ہوا تھا جب یہی شارق کمال صدیقی ڈی پی او بہاولنگر تھے مرحوم عبدالستارلالیکاکے بیٹے عالم داد لالیکا کی شکایت پر نوازشریف نے شارق کمال صدیقی کو صوبہ بدر کرنے کا حکم جاری کردیا تھا کہ آپ پنجاب میں نوکری نہیں کر سکتے میاں شہبازشریف نے مشتاق سکھیرا کے ذریعے وہاں کے آرپی او سے کہا کہ شارق کمال صدیقی کے پاس 3گھنٹے ہیں وہ عالم داد لالیکا سے ان کے ڈیرے پرجاکرمعافی مانگ لیں یاپھر صوبہ بدر ہونے کے لیے تیار ہوجائیں۔ جب شارق کمال صدیقی کوصوبہ بدر کیاگیا تو مقامی لوگوں نے ان کو ہارپہنا کر بہاولنگر سے الوداع کیا تھا۔