لاہور : نجی اخبار نے دعویٰ کیاہے کہ خاتون اول کے سابق شوہر خاور مانیکا کی جانب سے ڈی پی او کو باقاعدہ فون کرکے ان سے پولیس رویے کی شکایت کی گئی۔ اس حوالے سے ہونے والی گفتگوکی ریکارڈنگ بھی مل گئی ہے۔ دوسری جانب گزشتہ روز سابق ڈی پی او
پاکپتن رضوا ن گوندل نے اپنا تحریری بیان تحقیقاتی کمیٹی کو جمع کروا دیا تاہم خاور مانیکا نہ خود آئے اور نہ ہی اپنا کوئی وکیل پیش کیا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ رضوان گوندل نے انکوائری کمیٹی کو آگاہ کیا ہے کہ پولیس کو خفیہ اداروں اور سپیشل برانچ کی جانب سے رپورٹ ملی تھی کہ درباربابا فریدؒ پر رات کے اندھیرے میں خاور مانیکا اور ان کے بچے آتے ہیں اور یہ لوگ اس راہ سے آتے ہیں اور وہاں کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے، جس کے بعد ڈی پی او پاکپتن نے پولیس کو الرٹ کر دیا جو اس فیملی کی مانیٹرنگ کرنے لگی، تاہم خاور مانیکا کو یہ معاملات ناگوار گزرے۔تفصیلات کے مطابق خاور مانیکا نے 5اگست کے بعد بھی رضوان گوندل کو فون کرکے شکایت کی، جس پر رضوان گوندل نے انہیں کہا کہ وہ اپنی درخواست پولیس کو دے دیں جس کی باقاعدہ تحقیقات کرکے اگر کسی پولیس اہلکار نے بدتمیزی کی ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہو گی لیکن 5اگست سے لے کر 23اگست تک کے واقعہ تک خاور مانیکانے کوئی درخواست نہیں دی یہاں تک کہ 23اگست کی رات ایک بجے ہونے والے واقعے کے حوالے سے جب خاور مانیکا
نے گاڑی نہیں روکی تو پولیس اہلکاروں نے ان کی گاڑی کا تعاقب کرکے انہیں روکا تو خاور مانیکا نے اپنا تعارف کروایا جس پر پولیس انسپکٹر نے انہیں سمجھایا کہ انہیں گاڑی بھگانی نہیں چاہئے تھی، پولیس غلط فہمی پر فائرنگ بھی کر سکتی تھی جس پر خاور مانیکا نے سخت الفاظ استعمال کئے جس کے حوالے سے پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ خاور مانیکا نے انہیں براہ راست گالی دی اور کہا تھا کہ تمہارا ”ڈی پی او“ کدھر ہے جس کے بعد ڈی پی او سے خاور مانیکا نے ازخود موبائل پربات کرکے ان پولیس اہلکاروں کے رویئے کے خلاف شکایت کی تو رضوان گوندل نے کہا کہ اگرآپ سمجھتے ہیں کہ پولیس نے غلط کیا یا بد تمیزی کی ہے تو آپ ان کے خلاف درخواست دیں، میں اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروا لیتا ہوں۔رضوان گوندل نے کہا کہ دراصل سکیورٹی تھریٹ ہے اس لیے چیکنگ اور سرچ آپر یشن کیا جاتا ہے جس پر خاور مانیکا نے کہا کہ سارا سرچ آپر یشن مانیکا فیملی کے خلاف ہی کیوں ہو رہا ہے، دراصل ہمیں پولیس ہراساں کر کے ہمارے ساتھ زیادتی کر رہی ہے، کوئی سکیورٹی تھریٹ نہیں ہے۔ جس پر رضوان گوندل نے
کہا کہ آپ ہمارے دفتر آ جائیں میں آپ کو تمام دستاویزات دکھا دوں گا۔ تاہم خاور مانیکا نے کہاکہ میں کسی کے دفتر نہیں آتا، میں اس معاملے کو اب خود دیکھ لوں گا۔ جس پر ڈی پی او نے متعلقہ پولیس آفیسر کو کہا کہ خاور مانیکا کو جانے دو، جس پر پولیس آفیسر نے بتایا کہ ان کے ساتھ پرائیویٹ سکیورٹی اہلکار بھی ہیں جن کے پاس اسلحہ ہے، تاہم رضوان گوندل نے کہا کہ تمام کو جانے دیں۔اس کے بعد ایک فون کال آئی جس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے آر پی او اور ڈی پی او کو بلایا اور اس واقعہ کی تفصیلات معلوم کرنے کے بعد اپنے ہی ڈی پی او تو تبدیل کر دیا۔ بتایا گیا ہے کہ رضوان گوندل نے 10صفحات پر مبنی اپنا تحریری بیان ایڈیشنل آئی جی ابوبکر خدا بخش کو جمع کروا دیا ہے جس پر خاور مانیکا کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ رضوان گوندل کے بیان اور خاور مانیکا کے نہ آنے پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ رضوان گوندل اور خاور مانیکا کی کالز کا ڈیٹا بھی نکلوایا جائے گا جس سے معلوم ہوگا کہ کس نے کس
کو کالز کیں جبکہ سپیشل برانچ سے بھی تفصیلات مانگ لی گئی ہیں کہ انہوں نے کس بنیاد پر سکیورٹی تھریٹ جاری کیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ رضوان گوندل نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایا ہے کہ 5اگست کے واقعہ پراگرخاور مانیکا کو اعتراض تھا تو انہوں نے اس واقعے کے بعد پولیس کو تحریری درخواست کیوں نہیں دی۔دوسری جانب آئی جی پنجاب کے ترجمان کی جانب سے جاری پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ رضوان گوندل کو کسی دباﺅ پر تبدیل نہیں کیا گیا بلکہ انہیں واقعے سے متعلق غلط بیانی پر تبدیل کیا گیا ہے کیونکہ ڈی پی او سے” شہری“ سے پولیس اہلکاروں کی بدتمیزی کے واقعے سے متعلق پوچھا گیا تھا، تاہم پولیس کی جانب سےتاحال اس ”شہری “کے متعلق واضح نہیں کیا گیا کہ وہ شہری کون ہے، جس کے ساتھ بدتمیزی ہوئی اور ڈی پی او نے کون سی غلط بیانی کی۔پولیس نے اپنے پریس نوٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ خاور مانیکا کے ساتھ یہ واقعہ پیش نہیں آیا،اور کیا پنجاب کے شہریوں کے ساتھ پولیس کے ناروا سلوک کے لاتعداد واقعات ہیں کیا پہلے بھی کسی ڈی پی او کو تبدیل کیا جاتا رہا ہے؟ تاہم اس حوالے سے پولیس سے مزید پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنا بیان دے چکے ہیں اور انکوائری رپورٹ آنے کے بعد اصل حقائق سامنے آئیں گے