لاہور (ویب ڈیسک) ارادہ تھا کہ نئی حکومت کے پہلے بارہ ایّام میں پیدا ہونے والے مباحث کا جائزہ لیا جائے۔ ملک 92 ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ اندرون ملک قرض اس سے کم نہیں۔ دشمن بلیک میلنگ کے در پے ہیں۔ لگ بھگ ایک ہزار ارب روپے بجلی کمپنیوں کے ادا کرنے ہیں۔نامور کالم نگار ہارون رشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ بجلی کے علاوہ بھی مالی بحران پیدا کرنے والے سرکاری ادارے ہیں۔ سٹیل ملز‘ واپڈا‘ ریلوے اور پی آئی اے۔ کل 1300 ارب روپے سالانہ۔ سبحان اللہ بحث کس چیز پہ ہے۔ وزیر اعظم نے ہیلی کاپٹر کیوں استعمال کیا؟ بی بی سی کے لیے ماہرین نے واضح کیا کہ کل بارہ ہزار روپے‘ تیس کلومیٹر کے دو طرفہ سفر پہ اٹھتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ڈی پی او پاکپتن اور مانیکا خاندان کو طلب کیا۔ غیر ضروری طور پر ذاتی طیارے میں سفر کیا۔ غلط کیا‘ مگر کون سی قیامت ٹوٹ پڑی۔ ناتجربہ کار ہیں منع کر دیئے جائیں گے۔ باز آ جائیں گے۔ نئی تقرریوں پہ اعتراض ہے کہ یہی لوگ شریف خاندان کا طواف کرتے تھے۔ نئے افسر کیا سمندر پار سے درآمد کیے جائیں۔ بے شک چند اعلیٰ دماغوں کو نظر انداز کیا گیا۔ حکومت کا تجربہ نہیں‘ سیاسی مشیر ناقص ہیں۔ غلطیاں تو ہوں گی۔ میڈیا کا حق ہے کہ نشاندہی کرے۔ دانت پیسنے‘ واویلا کرنے اور رونے کی بات کیا ہے۔ وزرائے اعلیٰ کے تقرر میں‘ وزارتیں سونپنے میں‘ میرٹ کا اس قدر خیال نہ رکھا گیا۔ عرق ریزی درکار تھی۔ کچھ شہ دماغ ہیں‘ کچھ اجلے اور ریاضت کیش‘ پولیس‘ سول انیٹلی جنس اور ٹیکس وصولی کے علاوہ افسروں کے انتخاب اور نگرانی میں جو مددگار ہو سکتے۔
سیاسی جدوجہد کے ہنگام‘ ساری توجہ حریفوں کو اکھاڑ پھینکنے تک محدود تھی۔ ذمہ داریاں سنبھالنے کی تیاری نہ کی گئی۔ غلطیاں تو ہوں گی‘ دیکھنا یہ ہے کہ کیا روش‘ من مانی‘ خود پسندی اور لوٹ مار کی ہے جیسی کہ جہاں پناہ زرداری اور جہاں پناہ نواز شریف میں تھی یا کچھ مختلف۔ذمہ داری سونپی جاتی ہے تو مہلت بھی دی جاتی ہے۔ پچھلی سیٹ پہ بیٹھ کر ڈرائیور کو گیئر بدلنے اور بریک لگانے کے لیے ہدایات نہیں دی جاتیں۔ احتجاج ایک چیز ہے‘ مداخلت‘ جھوٹ اور افواہ سازی بالکل دوسری۔ حکومت نے حماقتیں کی ہیں۔ جرم اس سے کوئی سرزد نہیں ہوا۔ وفاقی وزراء کی اکثریت احسن اقبال جیسے دانشوروں سے بدرجہا بہتر ہے۔ جن کی دو زندگیاں اور دو شخصیات تھیں۔ جن کی متاع چرب زبانی اور کاسہ لیسی کے سوا کچھ نہیں۔ممکن ہے نئی حکومت بھی ناکام رہے‘ مگر اس کا فیصلہ کم از کم بارہ ماہ گزرنے کے بعد کیا جا سکتا‘ بارہ دن کے بعد نہیں۔ اپوزیشن کی روش‘ خود اسی کو لے بیٹھے گی۔ عمران خان پہ‘ دونوں ہاتھوں سے فوائد سمیٹنے والے حضرت مولانا فضل الرحمن‘ جناب آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف مدظلہ العالی کو ترجیح کیسے دی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی پہ‘ آصف علی زرداری اور وحشی پراپرٹی ڈیلروں کے وکیل اعتزاز احسن کو کیسے ترجیح دی جا سکتی ہے۔ عارف علوی سے آج تک کون سا جرم سرزد ہوا؟جو کچھ کسی نے بویا ہے وہ اسے کاٹنا ہے۔ چالاکی اور عیّاری سے انسانوں کو دھوکا دیا جا سکتا ہے‘ پروردگار کو نہیں… اور فیصلے اس کی بارگاہ میں صادر ہوتے ہیں۔ ”والی اللہ ترجع الامور‘‘ معاملات اس کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں