لاہور (ویب ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کی صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں نامور صحافی شہزاد اقبال نے کہا: خان صاحب !جو کچھ پنجاب حکومت کے وزیراطلاعات فیاض چوہان نے کیا ‘ اس پر وہ کیا کہتے ہیں۔عمران خان نے پوچھا: اس نے کیا کیا ہے‘ مجھے تو پتہ نہیں ہے۔
نامور کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ایک لمحے کے لیے پھر سب صحافیوں کو کرنٹ لگا کہ دو تین دن سے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر فیاض چوہان کا موضوع چھایا ہوا ہے۔ عمران خان نے اِدھر اُدھر دیکھا تو انہیں پھر شہزاد نے بتایا کہ اس نے جہاں ٹی وی چینلز کے اینکرز کو گالیاں دیں‘ وہیں اس نے لاہور میں خواتین اور اداکارائوں کے بارے میں بھی نازیبا الفاظ کہے ۔ وہ نیا اخلاقی کوڈ متعارف کرانے جارہے ہیں۔ عمران خان کو واقعی کچھ پتہ نہ تھا۔ ان تین‘ چار دنوں میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں ان کے وزیراطلاعات نے کیا گل کھلائے ۔ عمران خان سے پوچھا گیا کہ کس معیار پر چوہان جیسے بندے کو انہوں نے اتنے بڑے صوبے کی اہم وزارت دے دی؟ ۔عمران خان بولے: دراصل جن دنوں ان کی پارٹی نواز لیگ کے ہاتھوں بہت شدید تنقید کا شکار تھی‘ تو وہ چاہتے تھے کہ ان کی پارٹی کے لوگ ٹی وی چینلز پر جا کر انہیں ان کی زبان میں جواب دیں۔ اس وقت انہوں نے پارٹی کے چند لوگوں کو کہا کہ وہ بھی جا کر دفاع کریں ‘ لیکن اس وقت یہی فیاض چوہان تھا‘ جس نے ہر جگہ جا کر نواز لیگ کے ان لوگوں کا سامنا کیا اور پارٹی کے لیے لڑا۔
عمران خان کے بقول‘ وہ مشکل وقت میں پارٹی کا وفادار رہا‘ لہٰذا اب اسے وزارت دی گئی ۔ میں نے صحافیوں کے چہرے پر نظر ڈالی ‘تو چند چہروں پر واضح لکھا ہوا تھا کہ وفاداری کا صلہ دیا گیا ۔ یہی معیار تو نواز شریف اور مریم نواز کا تھا ‘جو ان کا ٹی وی سکرین پر دفاع کرسکتا تھا‘ وہی وزارت کا اہل تھا۔ مریم نواز تو ہر روز ناشتے پر ان پارٹی لیڈروں کے لیے تالیاں بجواتی تھیں‘ جو کل رات ٹی وی شوز میں پی ٹی آئی کے لوگوں کی ایسی تیسی کر کے آتے تھے۔ طلال چوہدری‘ مریم اورنگزیب ‘ دانیال عزیز‘ محسن رانجھا کو وزارتیں ملنے کے پیچھے بڑی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ وہ ٹی وی چینل پر مریم اور نواز شریف کا اندھا دھند دفاع کرتے تھے۔ تو کیا اب تحریک انصاف بھی معیار اور میرٹ کی بجائے صرف وفاداری دیکھے گی کہ کون کتنی بڑی گالی میٖڈیا اور مخالفین کو دے سکتا ہے؟عمران خان کو بھی محسوس ہوا کہ ان کے جواب سے صحافی کچھ مطمئن نہیں ۔ عمران خان نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر بولے: ایسی وزارتیں اور پوزیشن کوئی مستقل نہیں ہوتیں۔ اس طرح کے فیصلے بدلے بھی جاسکتے ہیں ۔ ان کا اشارہ واضح تھا کہ فیاض چوہان سے پنجاب کی وزارت واپس لی جاسکتی ہے ۔اتنی دیر میں نسیم زہرہ نے کھڑے ہوکر کہا: خان صاحب جو کچھ سوشل میڈیا پر آپ کی پارٹی کے لوگ ان صحافیوں کے ساتھ کررہے ہیں‘ جو تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہیں ‘ اس بارے انہیں اندازہ ہے ؟ نسیم زہرہ نے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پرعاصمہ شیرازی اور سلیم صافی پر ہونے والی گالی گلوچ پر تنقید کی۔ عمران خان بولے :کبھی بھی ایسی باتوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے‘ بلکہ وہ اکثر کہتے رہتے ہیں کہ ایسی باتوں سے پارٹی کا نقصان ہوتا ہے