لاہور (ویب ڈیسک) پنجاب میں ایم پی ایز کو خوش کرنے کے لئے وزارتیں
دینا ایک عرصہ سے جاری ہے ، بعض کم پڑھے لکھے وزرا کو اپنے محکموں کے پورے نام کا علم نہیں ہوتا ،کابینہ وسیع ہو تو پھر ایک محکمے کو دو دو حصوں میں بھی تقسیم کیا جاتا رہا ہے
جبکہ ایک وزیر کو زیادہ محکمے دے کر وزرا کی تعداد کم بھی کی جا سکتی ہے مگر ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے ۔گزشتہ دور حکومت میں صوبائی وزرا کی تعداد 34جبکہ اب 23ہے ۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پنجاب کابینہ میں مزید توسیع ہو گی اور وزرا کے لئے محکمے تلاش کرنا پڑیں گے ۔پنجاب میں ایک شخص کو وزیر تعلیم نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ بعض مصلحتوں کے باعث تعلیم کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جا چکا ہے ،سکول اور ہائرایجوکیشن کے الگ الگ محکمے بنا دئیے گئے ۔ علاوہ ازیں پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن، سپیشل ایجوکیشن اور لٹریسی اینڈ نان فارمل بیسک ایجوکیشن سب کو ملا کران کا ایک وزیر تعلیم بنایا جا سکتا ہے مگر ان کے الگ الگ وزیر ہی بنائے جاتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے مراد راس کو سکول ایجوکیشن کا محکمہ دے دیا ،راجہ راشد حفیظ کو لٹریسی اورغیر رسمی بیسک ایجوکیشن کا وزیر بنایا گیا ہے جبکہ ہائرایجوکیشن ،پنجاب ایجو کیشن فاؤنڈیشن اور سپیشل ایجوکیشن کے محکمے خالی ہیں ۔اسی طرح محکمہ صحت کو دو حصوں پرائمری اینڈ سکینڈری اور سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن میں تقسیم کیا گیا مگر موجودہ حکومت نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو دو محکموں کی وزیر بنا کر مکمل وزیر صحت بنا یا جو ایک اچھی روایت ہے ۔کچھ محکمے وزرا کے پسند یدہ ترین ہوتے ہیں جن میں داخلہ ، قانون و پارلیمانی امور ، خزانہ ، اطلاعات و نشریات ، لوکل گورنمنٹ ، زراعت ، جیل خانہ جات اور دیگر شامل ہیں جبکہ کچھ محکمے غیر معروف ہونے کے باعث وزرابمشکل ہی قبول کرتے ہیں ان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ ، آرکیالوجی ، کاؤنٹرٹیر رازم وغیرہ شامل ہیں